گھر میں غیر معمولی سناٹا تھا، اور شان کی گاڑی بھی باہر نہیں تھی۔ میں گھر میں داخل ہوا اور کمرے کی طرف قدم بڑھائے، اور ساتھ ہی شان کو میسج کرکے پوچھا کہ خیر تو ہے، کہاں ہو؟ اس کا فوراً ہی جواب آگیا کہ بھائی تمھیں بتایا تو تھا کہ میں آج مُلتان کیلئے نکل جاؤں گا کیونکہ لانگ ویکنڈ ہے۔ میرے تو جیسے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ میرے ذہن سے یہ بات نکل گئی تھی کہ مجھے شان کے ساتھ مُلتان جانا تھا، اور اس نے بھی پوچھنا گوارا نہ کیا۔ عاشورہ کی چھٹیاں تھیں اور ان کے آگے ہفتہ اتوار۔ گھر والوں نے میری دعائے خیر کی بات چھیڑی ہوئی تھی۔ ایک عرصے تک تو عاشورہ ہمارے گھر بھی عاجزی کے ساتھ گزارا جاتا تھا، پَر خاندان میں کچھ مَردوں پر دیوبندیت کے اثرات بڑھتے جارہے تھے، اور میرے چچا (اور ہونے والے سُسر) کا إصرار تھا کہ یہ تقریب مُحَرم میں ہی کی جائے گی۔ دَس مُحَرم کےاگلے ہی دن۔ ان کو اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ اگر میں مقابلے کا امتحان پاس کر گیا تو کہیں باغی نہ ہو جائوں اور یہ رشتہ توڑ نہ دوں۔
میرے پسینے چھوٹنے لگے۔ مجھے جلد ہی مُلتان پہنچنے کا بندوبست کرنا تھا۔
ایسے خوشی غمی کے موقعوں پر لاہور سے باہر نکلنا ایک معرکہ بن جاتا ہے، اور وہی جگہ جہاں باقی سارا سال وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلتا، ان دِنوں قید معلوم ہونے لگتی ہے۔ شہر سے نکلنا ضروری تھا۔ میں نے فٹافٹ ڈائیوو فون کیا۔ پہلے تو پانچ منٹ کسی نے جواب نہیں دیا، پھر خدا خدا کرکے ایک نمائندے نے فون اٹھایا اور بولی کہ شاید مجھے نو بجے والی بس میں جگہ مِل جائے مگر اس کیلئے مجھے آدھا گھنٹہ پہلے پہنچنا ہوگا۔
میں نے اپنا سامان باندھا۔ باہر والے دروازے کو تالا لگانے ہی لگا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی، او بھائی یہ اس گھر کو تالے کب سے پڑنے لگے؟ یہ گُل جی کی آواز تھی۔ میں نے اُن کو بتایا کہ میں مُلتان جا رہا ہوں اور اب ان سے اگلے ہفتے ملاقات ہو گی۔ گُل جی نے کہا، بھائی خیروعافیت سے جاؤ، ہم اِدھر ہی سوز کریں گے۔ میں نے کہا، گُل جی سب اپنے اپنے گھروں کو جا چکے ہیں، آپ اکیلے کیا کریں گے؟ انھوں نے اصرار کیا کہ چابیاں انھیں پکڑا دی جائیں، بھلا میرا کیا جاتا ہے؟ بات تو صحیح تھی، میرا کیا جاتا تھا۔ اور ویسے بھی دی ایچ اے میں دن بدن وارداتیں بڑھتی جار ہی تھیں۔
میں نے چابی پکڑائی اور رکشہ روکنے کیلئے گھر کے آگے رُک گیا۔ چند مِنٹ گزرے ہوں گے کہ گُل جی میری طرف آتے دکھائی دیۓ اور کہنے لگے، یار! تم ڈائیوو سے جارہے ہو؟
جی، خیریت؟
یار! فردوس مارکیٹ میں ایک کام ہے، مجھے وہاں چھوڑتے جاؤ۔
جی جی کیوں نہیں، چلیں رکشے پر چلتے ہیں۔
ڈیفنس میں رہنا اور وہاں سے نکلنا، دونوں مہنگے تھے۔ میں نے سوچا کہ کیوں ناں تھوڑی بچت کی جائے اور موٹر سائیکل پر جایا جائے۔ گُل جی واپسی پر موٹر سائیکل لیتے آئیں گے، اس
طرح دو چار سو بچ جائیں گے۔
میں نے موٹر سائیکل نکالی اور اُس پر سوار ہو گیا۔ گُل جی پیچھے آکر بیٹھ گئے۔ میں نے اپنا سفری بیگ انھیں پکڑایا۔
ارے احسن! یہ کیا کر رہے ہو؟ بھائی میں اتنا وزن نہیں اٹھا سکتا، مجھ سے یہ نیچے گر جائے گا۔
پیچھے مڑ کر دیکھا تو گُل جی کی گُدی نظر آئی۔ وہ میری طرف پیٹھ کر کے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں دنگ رہ گیا، میں نے کہا گل جی یہ کیا، یہ آپ کس طرح بیٹھے ہیں؟ اِس طرح تو چھوٹے بچے بیٹھا کرتے ہیں۔
گُل جی کا وُجود ویسے بہت مختصر سا تھا، لیکن ان کا سر باقی وُجود سے مناسبت میں نہیں تھا۔ کافی بھرا ہوا اور گول سا منہ تھا، جس پر سخت کالی داڑھی تھی، جو جبڑوں کے ساتھ ساتھ گولائی کی شکل میں چلتی جاتی تھی، اورگل جی باقاعدگی سے گالوں سے بال صاف کیا کرتے تھے، جس کے نتیجے میں ہمیشہ ان کے گالوں پر تازہ شیو کے نشان ہوتے۔ کاٹن کا ایک کالا کوٹ ان کے کندھوں پر رہتا، جس کے شانے ان کے کندھوں سے تھوڑے باہر کو نکلے ہوتے، جو اس بات کا پتہ دیتے تھے کہ یہ کوٹ انکا نہیں۔ جب جب ان کی شیو بڑھی ہوتی اور خط نہ بنا ہوتا، تو ایسی بوسیدہ حالت میں وہ ایک پکی عمر کے نشئی معلوم ہوتے۔
میں نے پریشان ہوکر کہا، گُل جی آپ براہ مہربانی سیدھے ہو کر بیٹھیں، اس طرح ہمارا کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔ کہنے لگے، اسی کے خوف سے تو اس طرح بیٹھا ہوں، مجھے تم پراعتماد نہیں۔ میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ تم تیز رفتار سے موٹر سائیکل چلاتے ہو، اور بغیر دیکھے موڑ کاٹ لیتے ہو۔ اس لیے میں پیچھے سے آتی ہوئی ٹریفک دیکھوں گا اور تمھیں خبردار کرتا رہوں گا۔ میں کچھ بھنایا، پر وقت کی کمی کے باعث بحث کے بجائے وہاں سے نکلنا مناسب سمجھا۔ مجبوراً اپنا بیگ آگے ٹینکی پر آڑا ترچھا کر کے رکھا اور آہستہ آہستہ موٹر سائیکل چلانا شروع کی۔ ڈیفنس موڑ سے ہوتے ہوئے کیولری پر چڑھے اور آگے شامی روڈ اشارے پر رکے۔ جب سیون اپ کے پل کے قریب پہنچے تو گل جی نے کہا، احسن، پُل کے نیچے سے چلو۔
فردوس مارکیٹ تو آگے ہے، نیچے سے جانے کا بھلا کیا مقصد؟ گُل جی، وہاں تو عام حالات میں بھی ٹریفک پھنسی ہوتی ہے، آپ اس وقت وہاں سے چلنا چاہ رہے ہیں، مجھے بس پکڑنی ہے، دیر ہوجائے گی۔ میں نے گُل جی سے چیخ کر کہا، اب چونکہ ان کا منہ دوسری طرف تھا، اس لیے مجھے ضرورت سے زیادہ اونچا بولنا پڑ رہا تھا۔
گُل جی نے کہا، تم چلو، نہیں پھنستے ہم ٹریفک میں۔
میں نے موٹر سائیکل کا سروس روڈ سے ہوتے ہوئے پھاٹک کی طرف کا رخ کیا۔
آگے ٹریفک رواں تھی، میں نے سکون کا سانس لیا۔ اڈے پر پہنچنے کے لیے آدھا گھنٹہ ابھی پڑا ہوا تھا۔ دل ہی دل میں اس بات پر فخر تھا کہ میں نے ڈھائی تین سو کی بچت کی ہے۔ جب پھاٹک پرپہنچے تو گُل جی نے کہا، پھاٹک کراس کرو اور موٹر سائیکل روکو، میں اس کو کال ملاتا ہوں۔ کال بند ہونے کے بعد انھوں نے کہا، بائیں طرف گلی میں مڑ جاؤ۔ میں بائیں طرف مڑ گیا۔
یار! تم کہاں جا رہے ہو، میں نے تمھیں بائیں جانب کا کہا تھا، گُل جی نے قدرے غصے میں کہا۔
مجھے احساس ہوا کہ کیونکہ اب وہ الٹے بیٹھے ہیں، تو ان کا سیدھا میرا الٹا ہے اور الٹا سیدھا۔ میں نے معذرت کی اور موٹر سائیکل دوسری جانب موڑی۔ تھوڑی دیر آگے چلتے گئے۔ میں نے موٹر سائیکل آہستہ کی، یہ سوچتے ہوئے کہ گُل جی ابھی رکنے کا کہیں گے۔
یار! تم بہت آہستہ چلا رہے ہو، وہ بندہ چلا نہ جائے۔
گل جی میں نے تو آپ کے لیےآہستہ کی ہے، ورنہ مجھے تو دیر ہو رہی ہے بس پکڑنے میں۔
تمھیں گھر جانے کی پڑی ہے، اور یہاں میری دوائی کا پتہ نہیں ملتی ہے یا نہیں۔
دوائی؟ کیا مطلب گل جی، طبیعت خراب ہے آپ کی؟ یہاں تو کوئی دوا خانہ نہیں۔
نہیں بھائی، وہ والی دوائی نہیں، ڈیلر نے یہاں بلایاہے، چرس پکڑنی ہے، تمھیں تو پتہ ہے آگے عاشورہ آرہا ہے، سارے ڈیلر غائب ہوں گے۔ اتنی چھٹیاں کیسے گزریں گی؟
میں نے ایک دم بریک لگائی، اور میرا بیگ گرتے گرتے بچا۔
گل جی آپ مجھے چرس کی خریداری کیلئے لے کے جا رہے ہیں، اور یہ بات مجھے آپ اب بتا رہے ہیں؟ یہ بھلا کیسا مذاق ہوا؟ آپ کو معلوم ہے مجھے ایسے کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں۔
دلچسپی تو مجھے بھی نہیں ہے، پر مجبوری ہے احسن۔ تمھارا اس میں کیا جارہا ہے، تمھارے راستے میں پڑتا تھا یہ علاقہ، اس لیے میں نے کہا کہ مجھے لیتے چلو، اور ویسے بھی ہم نے رکشہ پر آنا تھا تو میں پیچھے اتر جاتا، تم نے خود ہی موٹر سائیکل اٹھائی۔ اب دو منٹ صبر کرو، نہیں چھوٹتی تمھاری بس۔
سچ تو یہ ہے کہ اس وقت مجھے بس کے چھوٹنے کی پرواہ نہیں تھی، میرے حواس اُڑ چکے تھے۔ ہمارے ایک طرف بہتا ہوا (یا رکا ہوا) گندا نالہ تھا اور اس کے ساتھ ریل کی پٹڑی تھی، اور دوسری طرف شٹر بند دوکانیں۔ پٹری کے اس پار جھونپڑیاں اور کچے پکے گھر تھے، جن میں کہیں کہیں چولھا جل رہا تھا۔ میں نے زندگی میں کبھی اس قسم کی واردات نہیں کی تھی، اور یہ بات میں کہیں پڑھ چکا تھا کہ ملک میں شراب سے زیادہ چرس کے پکڑے جانے پر سخت سزا ملتی ہے۔
میں نے گل جی کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔ انھوں نے دردمندانہ انداز میں کہا کہ یار تمھیں مجھ پر اعتماد نہیں ہے، میں وکیل ہوں مجھے قانون کی سب سمجھ ہے۔ میں نے پہلے بھی کئی بار اس جگہ سے چرس لی ہے، وہ بندہ اعتماد والا ہے، تم گھبراؤ نہیں۔ آگے چلتے چلو، وہ آتا ہی ہوگا۔ تم نے ڈائیوو پر جانا ہے، وہ وہاں سے پانچ منٹ دور ہے۔ تم بس پکڑنا اور میں وہاں سے واپس آجاؤں گا۔
بات سچ تھی، گل جی وکیل تھے اور تھانے کچہریوں کی زبان اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اور مجھے وہ دن یاد آگیا جب اُنھوں نے ایک بار مجھے حوالات سے ۔۔۔
یار! تیز چلاؤ موٹرسائیکل، گل جی نے دوبارہ تاکید کی، اور میں ماضی سے دوبارہ حال میں واپس آگیا۔
میں نے تھوڑی رفتار تیز کی، اس امید سے کہ پیچھے سے آنے والی مصیبتوں کے ہتھے نہ چڑھ سکوں، اور شاید آگے نکلتی بس کو پکڑ لوں۔ یہ احساس مجھے کچھ لمحوں میں ہوا کہ خواہ میں جتنا بھی تیز موٹر سائیکل چلاؤں، ایک مصیبت تو کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑ سکتی، جس کو میں نے خود اپنے ساتھ بٹھایا ہوا ہے۔
کچھ دور جا کر، چند گلیاں مڑ کر ایک تندور والے کے ساتھ گل جی نے روکنے کو کہا۔
گل جی اتر کر وہیں ٹہلنے لگے، جیسے وہ کبھی کبھی میرے کمرے میں چرس پی کر ٹہلا کرتے تھے۔ میں نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوالیہ آنکھوں سے گل جی سے پوچھا، کہ مزید کتنی دیر ہے؟ انھوں نے ہونہہ کرکے انگلیوں سے دو منٹ کا اشارہ کیا۔ آگے پیچھے خاموشی تھی۔ ہم ڈھابے کی اوٹ میں کھڑے ہوئے تھے۔ اس خاموشی کو تندور سے روٹی نکالتے ہوئے چمٹوں کے ٹکرانے کی آواز وقتاََ فوقتاََ توڑتی، اور پس منظر میں امیتابھ کی کسی فلم کے ڈائالاگ اس شور کو اور تقویت دیتے۔
گل جی نے مجھے اشارے سے بتایا کہ ان کو مُوتنا ہے، یہ کہہ کر وہ کہیں چلتے بنے۔
میں نے سوچا کہ یہ اچھا موقع ہے، میں یہاں سے نکل چلتا ہوں، گل جی کو بعد میں منا لوں گا۔ پھر خیال آیا کہ موٹر سائیکل کس کے حوالے کروں گا، اس لیے انتظار ہی مناسب ہے۔
مجھے اس بات کی بھی پریشانی تھی کہ کہیں کوئی چوری ڈکیتی نہ ہوجائے، یہ علاقہ بہت غیر محفوظ سا لگ رہا تھا۔ اس بات کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ شدید رش والے علاقوں کے ساتھ اتنے سنسان علاقے کیوں ہوتے ہیں، آبادی اور رش کی متوازن تقسیم کیوں نہیں ہو سکتی؟ میں اس علاقے میں پہلے کبھی نہیں آیا تھا، ہمیشہ پل کے اوپر سے گزر کر کینٹ سے گلبرگ یا گلبرگ سے کینٹ آنا جانا رہتا تھا۔ پل کے نیچے اگر گئے بھی تو صرف تب، جب گرومنگٹ روڈ سے ہوتے ہوئے گلبرگ میں مڑگئے۔
اسی دھیان میں تھا کہ پرے سے کچھ موٹر سائیکلوں کی آواز آئی۔ میں نے مڑ کے دیکھا تو دور سے مجھے نیلی بتی نظر آئی، یا تو وہ ڈالفن تھی یا میرا وہم۔ لیکن یہ وقت وہمی ہونے کا نہیں تھا۔ میں نے احتیاطً کک ماری اور موٹر سائیکل چلا کر کھڑا ہوگیا۔ اس بات کا اندازہ مجھے بعد میں ہوا کہ ڈالفن والے اس اندھیرے میں میرے موٹرسائیکل کی ہیڈ لائٹ کے جلنے سے خبر دار ہوئے ہوں گے، اور اگر پہلے وہ کسی اور جانب جارہے تھے تو اب ضرور میری طرف آنے کا سوچیں گے۔ میرے گلے میں طوق پھنس گئی۔ پہلے پہل میں نے سوچا کہ فٹا فٹ دوڑ چلتا ہوں لیکن یہ خیال آیا کہ اس پھٹیچر پر کتنا ہی دور جاسکوں گا اور اگر انھوں نے پیچھے سے گولی چلا دی؟ ویسے بھی میرے ہاتھ میں یہ کالا بیگ تھا، جو مشکوک لگ سکتا تھا اور عاشورہ سر پر تھا تو سیکورٹی والے الرٹ تھے۔ اسی کشمکش میں میں نے انجن بند کیا، موٹرسائیکل ایک طرف لگائی، اور بیگ اٹھا کے تندور میں گھس گیا۔ کچھ مزدور بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ ہوٹل والے نے میری طرف دیکھا اور پھر مجھے نظر انداز کر کے دوبارہ چمٹوں کی مدد سے تندور سےروٹیاں اتارنا شروع کر دیں، جیسے میں گاہک تو درکنار انسان تک نہ ہوں۔ اوپر سے مجھے گھر سے فون آئے جارہے تھے جن کا بس ایک ہی سوال تھا کہ روانہ ہوگئے ہو کہ نہیں۔ اس افراتفری میں میں سر سے ہیلمٹ اتارنا بھول گیا۔
اس سفری بیگ، پرانی موٹرسائیکل، اور ہیلمٹ کی کھلی پنی اور کالے کپڑوں میں میں اپنے آپ کو مجرم سمجھ رہا تھا۔
دوکاندار سے میں نے فوراً چائے کا بولا۔ پھر سوچا کہ اگر ڈالفن والے ادھر آدھمکے تو صرف چائے پیتا دیکھ کر سمجھیں گے کہ کوئی گڑ بڑ ہے۔ ساتھ ہی قورمے کی ایک پلیٹ اور دو نان کا بھی بول دیا۔ میں جان بوجھ کر گلی کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گیا اور امیتابھ کی نہ جانے کس فلم کو گھورنے لگا۔
میرے پیچھے آکر دو بڑی موٹر سائیکلیں رکیں۔ میں نے لاپرواہی کا اظہار کرتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، لیکن میرے پیر زمین پر جم چکے تھے، اور چائے جو اب تک میں نے منہ کو نہ لگائی تھی، اس پر بالائی کی تہہ جم رہی تھی۔
اس بات سے میں بخوبی واقف تھا کہ قانون کے مطابق اگر افسر کے پاس شک کی کوئی وجہ ہو کہ کوئی ذریعہٴ نقل و حمل یا کوئی شخص کسی نشہ آور مواد کی نقل و حمل کیلئے سہولت کاری مہیا کر رہا ہے یا کرنے جا رہا ہے تو افسر اپنی صوابدید پر اسے روک سکتا ہے اور پوچھتاچھ کرسکتا ہے۔
اور اس بات سے بھی بخوبی واقف تھا کہ قانون کے مطابق اگر افسر کے پاس شک کی وجہ ہو کہ کوئی ذریعہ نقل وحمل نشہ آور دوا، منقلب نفسی موادیا کنٹرولڈ مواد کی نقل وحمل کیلئے استعمال ہوا ہے یا ہونے والا ہے یا کسی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے، ہو رہی ہے، یا ہونے والی ہے، تو وہ کسی بھی وقت اس ذریعہ نقل وحمل کوروک سکتا ہے، اور طیارے کی صورت میں اسے زمین پر اترنے پر مجبور کرسکتا ہے (اور اگر نیچے سمندر ہو تو کیا ڈوبنے پر مجبور کرسکتا ہے؟) کوئی بھی شخص پاکستان کے اندر یا باہر اس ایکٹ کے تحت قابل سزا جرم کا ارتکاب یا ارتکابِ جرم میں شمولیت یا شراکت یا ارتکاب جرم کی سازش، کوشش، امداداعانت، سہولت کاری،ترغیب، آمادگی یا مشاورت نہیں کرے گا۔
یہ وہ نکتے تھے جہاں پر آکر میری سوئی اٹک گئی۔ میں سو فیصد سہولت کار تھا۔ اب معلوم یہ نہیں کہ جرمانہ کتنا ہوگا؟ اگر دس بیس ہزار کی بات تھی، تو پھر کچھ نہ کچھ جگاڑ کی جاسکتی تھی، پر اگر بات لاکھوں میں گئی تو پھر تو گھر تک پہنچ جانی تھی اور کوئی بعید نہیں کہ اباجی عاق کر دیں کیونکہ چرسی سے بڑی گالی ہمارے خاندان میں نہیں ہوسکتی، آپ لڑکی بھگا کر گھر کی چوکھٹ پر میں آسکتے ہیں، پر چرس پی کر نہیں۔
میں نے سوچ لیا کہ پولیس والے کو صاف صاف بتا دوں گا کہ گو کہ میری سواری نقل وحمل میں حصہ لے رہی تھی، پر میرا اس کی پیداوار یا خرید و فروخت سے کوئی تعلق نہیں اورگل جی سے میں اچھی طرح واقف نہیں ہوں، اس شخص نے مجھ سے راستے میں لفٹ مانگی اور میں نے ترس کھا کر بٹھا لیا۔
کچھ دیر بعد میرے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ پولیس والے کا ہاتھ ہے۔ میرے ماتھے سے پسینہ ٹپکنا شروع ہو گیا۔ کم ازکم دو سال کی سزا یا جرمانہ یا دونوں؟ پیچھے مڑا تو گل جی کا ہاتھ تھا۔ موٹر سائیکلوں پر نظر ڈالی تو وہ 1122 والوں کی سواریاں تھیں جو چائے پینے کیلئے یہاں رکے تھے۔
گل جی نے تعجب کا اظہار کیا: تم غائب کیوں ہوگئے تھے؟ اب تک قورمہ اور نان سامنے آچکے تھے۔ شرم ساری سے میں کچھ حلق کے نیچے نہ اتار سکا اور نہ ہی اپنے دفاع میں کچھ بول سکا۔ گل جی نے کہا، ارے اس کی کیا ضرورت تھی؟ اور یہ کہہ کر انہوں نے میری آنکھوں کے سامنے قورمہ اور نان کھائے اور اپنے لیے ایک چائے بھی منگوائی۔ گل جی نے بتایا کہ ان کے ڈیلر نے فون کر کے کہا ہے کہ اس کا کارندہ یہاں نہیں آسکتا اور اگر انھوں نے دوائی لینی ہے تو اقبال ٹاؤن جانا ہوگا۔
گھڑی پر نو بج چکے تھے، ڈائیوو پر جانے کا وقت جا چکا تھا۔ اگلی تمام بسوں میں سیٹیں بک چکی تھیں۔
چوک یتیم خانہ ایک واحد چارہ تھا۔ ویسے بھی سو روپے کا قورمہ ہڑپ کرنے کے بعد بجٹ اور بھی ٹائٹ ہو گیا تھا، اور وہاں پر موجود بسوں کا کرایہ ڈائیوو سے کم تھا۔
کیا کہا آپ نے گل جی، اقبال ٹاؤن؟ تو چلتے ہیں ناں۔
ہم نے اپنا سفر اقبال ٹاؤن کی طرف شروع کیا۔ اس اندھیر نگری سے نکل کر، گلبرگ سے ہوتے ہوئے فیروز پور روڈ پر چڑھے۔
میں کینال کی متوازی سڑک پر مڑا۔ گل جی پھر اسی طرح میری پیٹھ سے پیٹھ ملائے بیٹھے ہوئے تھے۔
میں نے وقت کی زیادتی کو ذہن میں رکھتے ہوئے گل جی سے بات چیت شروع کی اور پوچھا کہ آخر یہ ڈیلر کون ہے، جو شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں آپ کو چکر لگوا رہا ہے؟
گل جی نے بتایا شراب کے برعکس جس کے زیادہ تر ڈیلر سیکورٹی اداروں اور مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور عموماً ٹونی یا سَنی کےنام سے جانے جاتے ہیں، چرس کی مارکیٹ پر مسلمان حاوی ہیں، اور وہ اپنا اصل نام چھپانے کی زیادہ زحمت نہیں کرتے۔ اور قومی اور مذہبی تہواروں کے آس پاس چرس کی قلت نہیں، ڈیلروں کی قلت پڑ جاتی ہے اور وہ گاہگ کو اپنی مرضی سے شہر کے کسی بھی کونے میں بلا لیتے ہیں۔ اس وقت ہم صابر نامی ڈیلر کے کارندے عاطف سے چرس لینے جارہے تھے، جو بقول گل جی کے خالص قندھاری مال رکھتا تھا۔ اور قندھار کا نام پہلی بار تب سامنے آیا تھا جب امریکہ نے طالبان کو وہاں شکست دی تھی۔ وہاں کی چرس کیوں مشہور ہے، کسی نے کبھی جاننے کی یا پوچھنے کی زحمت نہیں کی۔ قانونی کاغذوں میں چرس کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے: بھنگ کی رال، چرس، جو خام یا صاف کی گئی شکل میں بھنگ کے پودے سے الگ کی گئی رال ہے، اور اس میں اس کی کثیف شکل میں تیاری بھی شامل ہے، اور رال حشیش کے تیل یا مائع حشیش کے طور پر جانی جاتی ہے۔
میں نے کہا، گل جی آپ کو کیسے معلوم کہ اس کے پاس قندھار ہی کا مال ہے؟
یہ صرف پی کے ہی پتہ چلتا ہے، گل جی نے مختصر سا جواب دیا۔
ہم کریم بلاک پہنچے۔ گل جی نے کہا، بس سیدھا ہی چلتے رہو اور مرکز میں جا کر کہیں روک دو۔ کریم بلاک کی اکثر دوکانیں بند تھیں، لیکن مرکز میں ریڑھیوں والے کثرت سے موجود تھے۔ کافی چہل پہل تھی۔ دس پندرہ منٹ کھڑے ہونے کے بعد گل جی نے ایک موٹر سائیکل والے کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے اس سے کچھ فاصلے پر موٹرسائیکل روکی۔
اس موٹر سائیکل پر ایک شخص بیٹھا تھا، اور آگے ٹینکی پر ایک چار یا پانچ سال کی بچی۔ وہ شخص اتر کر ایک گلی کی جانب چلا گیا اور گل جی اس کے پیچھے پیچھے۔ میں بچی کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا، پر بچی نے کچھ خاص توجہ نہ دی۔
شروع میں تو میں کچھ سمجھ نہ سکا، پر جب مجھ پر پوری حقیقت وارد ہوئی تو میرا سر چکرانے لگا۔
میں نے سوچا کہ یہ شخص کتنا ہی بد کردار ہو سکتا ہے جو اپنے ساتھ ایک چھوٹی بچی کو لیے گھوم رہا ہے،کہیں یہ اس نے اغوا تو نہیں۔۔۔؟
میں نے اُس سے پوچھا، بیٹا، وہ انکل آپ کے کیا لگتے ہیں؟
بچی نے کوئی جواب نہ دیا۔
بیٹا، کیا نام ہے آپ کا؟ آپ اس انکل کو جانتی ہو، جو اس گلی میں گئے ہیں؟
کوئی جواب نہیں۔
اچھا آپ کی عمر کیا ہے؟
بچی نے پہلے مڑ کر پیچھے دیکھا اور پھر میری طرف دیکھ کر دونوں ہاتھ اٹھا کر پنجے ہتھیلیاں کھول کرمیری طرف کیے۔ کیا یہ دس سال کی تھی؟
نہیں، وہ مجھے لعنتیں دے رہی تھی۔
میں ششدر رہ گیا۔
گلی سے وہ شخص واپس آیا اور موٹر سائیکل اسٹارٹ کر کے چلا گیا۔ کچھ دیر میں گل جی بھی برآمد ہوئے۔
گل جی یہ کیا تھا؟
کیا کیا تھا؟
یہ شخص جس سے آپ نے یہ چیز خریدی ہے، اس کے ساتھ ایک معصوم بچی سوار تھی۔ یہ کِن لوگوں سے آپ لین دین کرتے ہیں؟
گل جی نے کہا، تمہیں کوئی بہت بڑا مغالطہ لگا ہے۔ میں تو جس شخص سےمال لے کر آرہا ہوں وہ تو پیدل تھا، یہ تو کوئی اجنبی شخص تھا، میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ڈیلر کا بندہ تو دوسری طرف گلی سے آیا تھا اور وہیں سے ہی نکل گیا۔
مجھے اپنی بیوقوفی پر تھوڑا غصہ آیا، اور میں نے یتیم خانے کی طرف رخ کیا۔ اب تقریباً سوا دس بج چکے تھے۔ نیازی اڈے پر بہت رش تھا اور بسیں کم تھیں، اور جو تھیں اُن میں سیٹیں نہیں تھیں۔ گل جی نے مشورہ دیا کے میں ٹرین سے جائوں۔ نائٹ کوچ بارہ بجے نکل رہی تھی۔
پھر سے موٹر سائیکل پر بیٹھے اور مُلتان روڈ سے ہوتے ہوئے ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑے۔ مجھے محسوس ہوا کہ گل جی کی کمر میری کمر سے نہیں جڑی۔ مڑ کر دیکھا تو گل جی سیدھے بیٹھے تھے اور ہاتھ میں سگریٹ کھول رہے تھے۔ میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میں نے گل جی کو نیاز مندی سے سمجھانے کی کوشش کی کہ حالات بہت خراب ہیں، آپ آرام سے گھر جا کر پیئے گا، ایسی بھی کیا طلب؟
گل جی نے کہا، مال چیک کرنا ہے، کہ اصل قندھاری ہے یا نہیں۔
چوبر جی سے آگے ناکہ لگا تھا۔ میں نے ٹینشن میں ریس دی اور تیزی سے نکلنے کی کوشش کی۔ اور پھر وہی ہوا جو ہونا تھا، پولیس والے نے اشارہ کر کے روکا۔
میری حالت غیر ہوئی جارہی تھی۔ منگنی سے ایک دن پہلے حوالات میں رات گزارنا کوئی اچھا شگن نہیں ہوسکتا تھا۔
پولیس والے ہمارے پاس آئے۔ سوا گیارہ بج رہے تھے، آدھے گھنٹے میں ٹرین نکل رہی تھی۔
پولیس والے نے کاغذ مانگے۔ میں نے کاغذ سامنے کیے۔ نہ جانے کتنی راتیں جیل میں گزارنی پڑیں گی؟
اگلی نمبر پلیٹ کیوں نہیں ہے؟ سپاہی نے پوچھا۔
میں نے کہا، ایک حادثہ ہوگیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ ٹوٹ گئی تھی۔
سپاہی نے کہا، بیگ کھولو۔
اوپر اوپر منٹو نامہ رکھا تھا۔ پولیس والے نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا، منٹو پڑھا جا رہا ہے، لگتا ہے کافی گرمی چڑھی ہوئی ہے۔
پھر اس نے گُل جی کی طرف رخ کیا۔ گُل جی نے نہ جانے اسے کیا دکھایا کہ سپاہی نے سر ہلایا اور گل جی سے مخاطب ہوا۔ یہ دوست ہے آپ کا؟
گل جی نے کہا، جی جی۔
شکل سے عادی لگتا ہے، خیال رکھیں اس کا۔ خدا حاٖفظ۔
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ عادی اور میں؟ لیکن اس سے زیادہ مجھے اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ پولیس والے نے اتنی آسانی سے ہمیں جانے دیا۔ میں نے فوراََ کِک ماری اور وہاں سے چل دیا۔
کچھ دیر میں ہم اسٹیشن پہنچ گئے۔ میں موٹر سائیکل سے اترا، بیگ کندھے پر اٹھایااور گل جی کو خدا حافظ کہنے کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا۔
گل جی نے بجائے ہاتھ ملانے کے سوالیہ آنکھوں سے مجھے دیکھا اور پھر بولے، بھائی یہ موٹر سائیکل کہاں لگانی ہے؟
کیا مطلب کہاں لگانی ہے، آپ اسے گھر لے جائیں۔
گل جی نے گھورتے ہوئے مجھے دیکھا اور پھر رک رک کر کہا، میرے دوست تمھیں معلوم نہیں مجھے موٹر سائیکل چلانی نہیں آتی۔
گل جی اگر آپ کو موٹر سائیکل چلانی نہیں آتی تو آپ میرے ساتھ آئے کیوں تھے؟ یہ پچھلے چار گھنٹوں سے آپ نے مجھے پورا شہر گھمایا ہے، صرف اس لیے کہ میں آپ کو چھوڑنے واپس جائوں؟
دیکھو احسن! تم اپنی کوتاہی کا ذمہ دار مجھے مت ٹھہراؤ، میں نے زندگی میں آج تک موٹر سائیکل نہیں چلائی، اور تمھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے۔ خیر تم مجھے دو سو روپے دو، میں رکشہ پر چلا جاتا ہوں۔
گل جی اگر میرے پاس دو سو روپے ہوتے تو کیا ہی بات تھی۔
میں نے کچھ دیر سر پکڑ کے سوچا پر کوئی ترکیب سمجھ نہیں آئی۔ گل جی نے اتنی دیر میں بھرا ہوا سگریٹ سلگایا اور میری طرف آگے کیا۔ میں نے ایک کش لیا اور کھانس کر واپس کر دیا۔
گھر والوں کو کیا کہا جائے، کہ اس ہفتے میری بات پکی نہیں ہوسکتی کیونکہ میں لاہور سے وقت پر نہیں نکل سکا؟ اتنے میں ٹرین کے ہارن کی آواز آئی اور نائٹ کوچ نے میرے بغیر ملتان کا سفر شروع کر دیا۔

Muhammad Abdul Sami is a writer and translator based in Berlin.
Aliza Rajput works on architectural sketches, abstract human art, visual storytelling, and creative writing. She is currently enrolled in BS sociology which lets her analyze and research social issues. Art is something that she does in her spare time and she loves to give stories to her sketches through abstract lines. Every sketch has a message within. She is also a part-time photographer, and captures humans and stories of Karachi, the city she calls home.
About the Art
Title: a destined place
This picture is an abstract sketch of different people going to a mutual destination. They are crowded onto a truck, but they have their own respective boundaries, their own destinies.
– Aliza Rajput