ESSAY
میری خاموشی کو آواز دینے والی نظم
مصنفہ: لینا خلف تفاحۃ ۔ اردو ترجمہ: ظفر ملک، فیصل محی الدین ۔ مصور: میسرۃ بارود

2024 ،"میسرۃ بارود،"لا زلت حیاََ
Maisara Baroud, "I'm still alive", 2024
کبھی کبھی آپ نظم کیلئے الفاظ کی تلاش میں ہوتے ہیں اور کبھی نظم کے الفاظ خود ہی آپ کو ڈھونڈھ لیتے ہیں۔
۔ ۲۰۱۴ کی گرمیوں میں میں کئی گھنٹے سکرینوں کے سامنے بیٹھی رہی۔ بالکل بےبس اور بے اختیار جب غزہ پر پھر سےجنگ مسلط کی گئی۔ شروعات میں میں نے بہت شرکت کی۔ اخباروں کو لکھا۔ اپنے سیاسی نمائندوں کو فون کئے اور جتنا سوشل میڈیا پر شرکت کرسکتی تھی کی۔ میں اپنے شہر کی ہر ہفتے ہونے والے مظاہروں کا حصہ بنی۔ لیکن ہر گزرتے لمحے کے بعد حملہ گزشتہ سے زیادہ شدید ہوتا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرے الفاظ مرجھا رہے ہیں۔
ان سب خبروں میں سے مجھے ایک خاتون کا انٹرویو یاد ہے جس میں اس نے ایک فون کال کے بارے میں ذکر کیا جو اُسے اور اسکے ہمسایوں کو اسارائیلی فوج کی طرف سے آئی۔ “اب وہ ہمیں فون کرتے ہیں۔” ایسی موت کی اطلاع دینے والی کال جس سے بچنے کی کوئی راہ نہ ہو، اس کال کی تلخ حقیقت اور اس کے الفاظ جلتے انگاروں کی طرح مجھے لگے۔ کئی دن اور راتوں کو یہ الفاظ میرے ذہن میں گونجتے رہے اور پھر میں نے لکھنا شروع کیا۔
ر“رننگ آرڈرز” وہ پہلی نظم تھی جو میں نے اپنے فیس بک پر پوسٹ کی۔ ایک ہفتے میں یہ نظم اتنی مقبول ہو گئی اور دُور دوُر تک اتنے لوگوں تک پہنچی جس کا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ کینیڈا میں ایک دوست نے اسے اپنے ایک فیس بک گروپ میں ڈالا اور مجھے بتایا کہ اس نے ٹورونٹو کی ایک اَمَن ریلی میں لوگوں کو یہ نظم پڑھتے سنا۔ اس کے بعد جلد ہی میرا بےحرکت ٹویٹر اکائونٹ نظم کے ٹویٹ اور اس کے یونانی، عبرانی اور ہسپانوی زبانوں میں ترجموں سے فعال ہو گیا۔ ایک اور دوست نے آئیرش ورکرز پارٹی کی طرف سے شائع شدہ میری نظم مجھے بھیجی۔ کسی اور کو یہ نظم “دِي ٹوکیو پروگریسو” میں شائع نظر آئی۔ بعد میں گرمیوں میں میری کئی لوگوں سے سان ڈياگو، وینکُووَر بی سی، واشنگٹن ڈی سی اور پٹزبرگ میں ملاقات ہوئی جنہوں نے اس نظم کو غزہ میں تشدد کے خلاف امَن مظاہروں میں سنا تھا۔
نیو میکسیکو کی ایک موسیقار جو آن فورمین نے اپنے ایک خط میں میری نظم کی کچھ سطریں موسیقی میں ڈھال کر بھیجیں جس کو اس نے “غزہ: سمندر کے کنارے ایک قید خانہ” کے نام سے ترتیب دی تھی۔ جو آن نے لکھا: جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ کافی امریکی یہودی غزہ میں جنگ سے دہشت زدہ ہیں اور ای پیک کے بالکل بھی مداح نہیں۔ لیکن میں جانتی ہوں کہ اسرائیلی پالیسی پر میرا کوئی اثر نہیں۔ لیکن میں یہی کر سکتی ہوں اور پُر امید ہوں کہ شاید یہ کسی کام آسکے۔
ر“رننگ آرڈرز” اس وقت لکھی گئی جب میں لفظوں پر ایمان کھو رہی تھی۔ فلسطین، لبنان اور شام کی گزشتہ جنگوں میں مجھے ہمیشہ تسلی رہی کہ فن ہمیں انسان بنائے رکھے گا۔ فن ہمیں گواہی میں مدد دے گا۔ پچھلی گرمیوں میں جب یہ ایمان سخت آزمائش سے دو چار تھا یہ چھوٹی سی نظم دنیا بھر میں مقبول ہو گئ اور مجھے ان گنت انسانوں سے جوڑ دیا جو میری طرح فن سے جینے اور مظبوط رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس صفحے پر میں نے کچھ مہان طریقوں کا ذکر کیا ہے جن سے “رننگ آرڈرز” نے دنیا میں زندگی پائی ہے۔ یہ سارے لِنک ایسے لمحات کو ظاہر کرتے ہیں جس میں یہ نظم ایک دُعا، ایک گواہی یا ایک نعرہ بنی۔ اور یہ سب ایسے لوگوں نے کیا جن سے میں کبھی نہیں ملی۔ میرے لیئے اس سے زیادہ تسلی بخش بات نہیں کہ میرے لفظوں نے دوسروں کو اپنی آواز بلند کرنے پر آمادہ کیا۔
اس نظم کا سفر آج بھی مجھے عاجز اور پُرعزم رکھتا ہے۔

Lena Khalaf Tuffaha is a poet, essayist, and translator. She is author of three books of poetry: Something About Living (UAkron, 2024), winner of the 2024 National Book Award and winner of the 2022 Akron Prize for Poetry, Kaan & Her Sisters (Trio House Press), finalist for the 2024 Firecracker Award and honorable mention for the 2024 Arab American Book Award, Water & Salt (Red Hen), winner of the 2018 Washington State Book Award and honorable mention for the 2018 Arab American Award. She is also the author of two chapbooks, Arab in Newsland, winner of the 2016 Two Sylvias Prize, and Letters from the Interior (Diode, 2019), finalist for the 2020 Jean Pedrick Chapbook Prize.
Lena was born in Seattle, Washington but she was raised in Saudi Arabia and Jordan. Her heritage is Palestinian, Jordanian, and Syrian and she is fluent in Arabic and English. Lena is passionate about a Free Palestine, the perfect cup of coffee, poetry, language, and gardening.

Zafar Malik is Director of Publications and Dean for Development and University Relations at East-West University in Chicago, the Managing Editor of East-West University’s Center for Policy and Future Studies journal, East-West Affairs, and an accomplished visual artist. He lives in Chicago and maintains his artist studio at the Noyes Cultural Arts Center in Evanston, Illinois. His translations have appeared in RHINO, Pratik: A Magazine of Contemporary Writing, and elsewhere.

Faisal Mohyuddin is the author of Elsewhere: An Elegy (Next Page, 2024), The Displaced Children of Displaced Children (Eyewear, 2018), and The Riddle of Longing (Backbone, 2017). He teaches high school English in suburban Chicago and creative writing at Northwestern University’s School of Professional Studies. He also serves as a Master Practitioner with the global not-for-profit Narrative 4 and is a visual artist. www.faisalmohyuddin.com
Maisara Baroud is a visual artist from Palestine. For more than a year, Maisara has been creating his series “I am still alive” in refugee camps, under the near-ceaseless fire of rockets, in Deir el-Balah, Rafah, and elsewhere in Gaza.
About the Art
Title: (426) لازلت حياً / I’m still alive (426)
حبر على ورق كانسون
35×50 سم
2024
Ink on Canson paper
35X50 cm
2024