FICTION

کفن

مصنفہ: بانو مشتاق ۔ اردو ترجمہ: نزہت نثار ۔ مصور: عمر شیخ

نوٹ: یہ اردو ترجمہ دیپا بھاستھی کے انگریزی ترجمے سے کیا گیا ہے

Artwork of a festive building, with a blue background.
Umer Sheikh, 'Festive town'.

جس دن شازیہ کی  فجرکی نماز قضا ہوتی،  وہ سارا الزام اپنے بڑھے ہوئے بلڈ پریشر پر ڈال دیتی۔ بلکہ اب تو اُس کی عادت ہوگئی تھی اپنی بے خوابی کا الزام بھی اِن  دواؤں پر ڈالنے کی۔

اُس کی امی کہا کرتی تھیں، یہ سب شیطان کا کھیل ہے۔ شیطان صبح صبح نازل ہوجاتا ہے، ہمارے پاؤں دباتا ہے، ہم پر نرم گرم کمبل لپیٹ دیتا ہے اور ہمیں تھپک تھپک کر سلادیتا ہے تاکہ ہماری نماز چھوٹ جائے۔ اِس لیے جیسے ہی شیطان بہکانے لگے فوراً اُسے لات مار کر کھڑی ہوجایا کرو اور وقت پر نماز پڑھا کرو۔ یہ خیال کہ شیطان اُس کا ذاتی ملازم ہے جو اُس کے پاؤں بھی دباتا ہے، اسے بڑا رومانوی لگتا اور وہ اُسے لگاتار لات مارتے ہوئے اس خیال سے لطف اُٹھاتی۔ لیکن پھر دیر سے اُٹھنا اُس کا معمول بن گیا اور شیطان پر الزام ڈالنا اُس کی عادت ہوگئی۔

اُس دن بھی وہ دیرتک سوتی رہی تھی۔ فجر کب کی قضا ہوچکی تھی۔ آنکھ کھلی تو کچھ دیر تو اُسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ  ہے کہاں۔ انگڑائی لینے پر ہاتھ، شوہر کے بازو سے ٹکرایا تو سمجھی کہ اُس کا سر اپنے ہی تکیے پر  ہے۔ وہ اپنے ہی ولایتی کمبل میں لپٹی ہوئی   ہے اور اپنے ہی گھر اور کمرے میں موجود ہے۔  اس مانوس ماحول کا  احساس ہوتے ہی اُس پر ایک سکون اور اطمینان طاری ہوگیا۔

لیکن یہ اطمینان زیادہ دیر قائم نہیں رہا۔ اسے لگا جیسے باہر سے کسی کے رونے کی آواز آرہی ہے۔ پھر جب تک وہ اپنے بستر سے اُٹھ کر آہستہ آہستہ دروازے تک آئی، اسے اپنے بیٹے فرمان کے بولنے کی آواز بھی آنے لگی۔ وہ تیزی سے صحن میں آئی تو اس کی نظر الطاف پر پڑی۔ اُس کی شکل پر پریشانی چھائی ہوئی تھی۔ فرمان اسے تسلّی دے رہا تھا۔ جو ہونا تھا ہوگیا۔ قسمت پر کس کا زور ہے۔ تم پریشان نہیں ہو، گھر جاؤ۔ امی اُٹھ جائیں تو میں خود سب کچھ  تمھارے گھر پہنچا دوں گا۔ وہ ابھی سو رہی ہیں، ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، میں ان کو جگانا نہیں چاہتا۔ ڈاکٹر نے ان کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کو کہا ہے۔

لیکن بھیا، جماعت نے آج شام کو پانچ بجے نماز جنازہ کا کہا ہے۔ ہمیں کسی کا انتظار بھی نہیں ہے۔ اس لیے غسل اور دوسری تیاریوں میں مزید دیر کرنے کی کیا ضرورت ہے، الطاف نے دُہرایا۔ فرمان کو غصہ آنے لگا۔ دیکھو تم نے مجھے کوئی  کفن رکھنے کے لیے نہیں دیا تھا۔ امی کو بھی حج کیے ہوئے اب چھے سات سال ہورہے ہیں۔ اگر ایسا ہی تھا تو یاسین بوا نے اتنے برسوں میں امی سے اپنا کفن کیوں نہیں لیا؟ اور یہ بھی تو ہوسکتا ہے نا کہ انھوں نے لے لیا  ہواور کہیں اور رکھ دیا ہو۔ تم جاؤ اور جا کر  اپنے گھر میں ایک بار پھر دیکھو۔

شازیہ اپنے بیٹے کے پیچھے آکر رُک گئی۔ وہ سخت حیران تھی۔ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ اس نے اپنے بیٹے کو پکارا۔ فرمان بیٹا، کس سے باتیں کررہےہو؟ فرمان اپنی ماں کی طرف مڑا ،شدید بے زاری واضح طور پر اس کے چہرے پر جھلک رہی تھی اور وہ سوچ رہا تھا، یہ عورتیں تھوڑی دیر کے لیے بھی خاموش نہیں رہ سکتیں۔ کبھی تو بس خاموش بیٹھ جائیں، اپنے کام سے کام رکھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر کسی ایک معاملے میں بھی ٹانگ اَڑانے سے چوک گئیں تو ان کا کھانا ہضم نہیں ہوگا۔ لیکن اس نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔  بلکہ بولا، امی آپ جا کر سوجائیں۔ آپ اُٹھ کر یہاں کیوں آگئیں؟ الطاف آیا ہے۔ یاسین بوا کا بیٹا۔ کفن کا پوچھ رہا ہے۔

اِس لمحے شازیہ کو لگا جیسے اُس پر آسمانی بجلی گر گئی ہو۔ وہ گھبرا کر بے چینی سے آگے بڑھی اور نوجوان لڑکے کو غصے سے گھورتے ہوئے چمک کر بولی، یہ کیا صبح صبح یہاں آکر تماشا لگایا ہوا ہے تم نے؟ کفن کے پاؤں ہیں جو یہاں سے وہاں چلا جائے گا۔ کوئی تمیز بھی ہے کہ کسی کے گھر کب اور کیسے جاتے ہیں؟ صاف ظاہر تھا کہ فرمان کو یہ سب کچھ بالکل اچھا نہیں لگ رہا۔  الطاف نے اپنی آواز دبا لی اور افسوس کے ساتھ ان کو دیکھتے ہوئے بولا، چِک اماں! صبح امی کا انتقال ہوگیا ہے، فجر کی نماز کے وقت۔ اسی لیے میں یہاں اس وقت آیا ہوں، کفن لینے کے لیے۔ اس خبر کو سُنتے ہی شازیہ کا دل ڈوب گیا۔ اُس نے جلدی سے قریب پڑی کُرسی کا سہارا لیا اور اُس پر ڈھے گئی۔ انہونی ہو گئی تھی، جو ناممکن تھا ممکن ہوگیا تھا۔ اب اس کا سامنا کیسے کرتی؟ اب اس کی تلافی کیسے ہوتی؟ اس کے لیے خود پراور اپنے خیالات پر قابو پانا مشکل ہورہا تھا۔ اف خدایا! آخر یہ کیا ہوگیا۔ اس نے بے اختیار آہ بھری۔

وہ کچھ بھی یاد نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن ماضی کی یاد اسے بے اختیار کررہی تھی۔ اُس دن اُن کے گھر پر ایک بڑی تقریب تھی۔ دُور دُور سے آئے ہوئے رشتے دار اور دوست اس کے گھر پر جمع تھے۔ شازیہ اور اس کا شوہر سبحان حج پر جارہے تھے۔ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے گھر  پہلے ہی ہو آئے تھے۔ سب سے مل چکے تھے، گلے لگ لگ کر شکوے شکایتیں ختم کرنے کی گزارشیں کرچکے تھے کہ اگر کبھی ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہویا ہم نے کبھی جانے انجانے میں کسی کا دل دکھایا ہو تو ہمیں بخش دیں۔  کہا سُنا معاف۔ رشتہ دار بھی خوب بڑھ چڑھ کر شازیہ اور سبحان کی آؤ بھگت میں لگے ہوئے تھے۔ معافیاں طلب کی جارہی تھیں، تحفے تحائف اور جوڑے پر جوڑے پیش کیے جارہے تھے تاکہ مقدس سفر پر روانہ ہونے سے پہلے شازیہ اور سبحان کو خوش کر سکیں۔ یوں باہمی گلے شکوے مٹانے کے بعد دوطرفہ اطمینان کے ساتھ، ان کے قریبی دوستوں اور رشتے داروں نے دونوں کو الوداع کہا۔

اس کے باوجود، حج کے سفر پر روانگی کو ایک ہفتہ رہ گیا تھا اور اب بھی کئی رشتے داروں سے ملاقاتیں باقی تھیں۔ دونوں میاں بیوی دُور پرے کے رشتے داروں کو، جن سے ملنے جانا مشکل تھا، فون کرنے میں بھی مصروف تھے تاکہ ان سے توبہ تِلاّ کرسکیں۔ سبحان، جو کہ ایک وسیع کاروبار کا مالک تھا اور شازیہ، جو کہ اس عالی شان بنگلے کی مالکن تھی، کے پاس دوستوں اور رشتہ داروں سے باری باری ملنے کا وقت تو تھا نہیں۔ یہی سوچ کر دونوں نے اپنے گھر پر ایک بڑی دعوت کا اہتمام کرلیا تھا۔ اس تقریب کا مقصد حج کے سفر پر روانگی سے پہلے معافی تلافیوں کا سلسلہ مکمل کرنا تھا۔

البتہ اس محفل میں ایک ایسی مہمان بھی تھیں جو بن بنائے بلائے چلی آئی تھیں  لیکن جس کے دل میں نہ غرور تھا اور نہ ہی  کھوٹ ۔ وہ یاسین بوا تھیں ۔ بوا کی شادی صرف تین سال چلی تھی، پے در پے  دو بچّوں کی پید ائش کے بعد،  شوہر نے راہِ فرار اختیار کی اور پھر کبھی ان کو  پلٹ کر بھی نہیں دیکھا ۔ وہ اے پی ایم سی یارڈ میں  قلی تھا اور ایک دن، سامان اٹھانے کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گیا ۔ یاسین بوا،  شوہر کی وفات پر عدت میں نہیں بیٹھیں۔ اس وقت ان کی عمر بھی کچھ زیادہ نہیں تھی۔ بس انھوں نے سرپر دوپٹہ اوڑھا اور لوگوں کے گھروں میں برتن دھونے، جھاڑو پونچھا کرنے کا کام کرنے لگیں۔  دوسروں کے گھروں کی تقریبات، شادی بیاہ، سالگرہ، تیج تہوار اور دعوتوں میں وہ اکیلی کام میں لگی رہتیں اور جانفشانی کے ساتھ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے سخت محنت کرتیں۔ گھر میں بیٹھ کر عدت پوری نہ کرنے پر لوگوں نے بہت باتیں بنائی تھیں کہ دیکھو، مرحوم شوہر کا حق بھی ادا نہیں کیا، عدت کا وقت تو مغفرت کی دُعا کرتے اور سوگ مناتے گزارا جاتا ہے۔ یاسین بوا کے کردار پر کیچڑ بھی اچھالی گئی تھی، لیکن اُن کے لیے اپنے بچّوں کا بھوکا پیٹ بھرنا اور ان کی زندگی زیادہ اہم تھی۔ یہ ان کی محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ ان کے بچّے اپنی زندگی میں آگے بڑھنے میں کامیاب ہوسکے تھے۔ تھوڑی بہت تعلیم حاصل کرلینے کی وجہ سے ان کی بیٹی معلمہ بن گئی تھی اور اب بچّوں کو قرآن پڑھا کر چار پیسے کما لیتی تھی۔ اس کی تنخواہ اور یاسین بوا نے جو کچھ تھوڑا بہت جمع کیا تھا، اسے ملا کر انھوں نے اپنی بیٹی کی مناسب جگہ شادی کروا دی تھی اور اب وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اکیلے رہتی تھیں۔ ان کا بیٹا رکشہ چلاتا تھا۔  جس سے گزارا ہو جاتا تھا، اس لیے جب ہاتھ پاؤں کی ہڈیاں چٹخنے لگیں اور بڑھتی عمر کے ساتھ نسیں اُبھر کر کپّا ہو گئیں تو بوا نے دوسروں کے گھروں میں کام کرنا کم کردیا۔

اب ان کی خواہش تھی کہ جلد از جلد اپنے بیٹے کی شادی کروا دیں۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ایک تمنا ان کی روح میں بسی ہوئی تھی۔ سارا دن ان کا دل بے ڈور پتنگ کی طرح اس خواہش کے پیچھے لگا رہتا۔ ان کو ہمیشہ سے پیسے جمع کرنے کی عادت تھی، یہ عادت کنجوسی کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ مستقبل کے خوف کی وجہ سے پختہ ہوئی تھی۔  شاید اسی لیے جب انھوں نے اپنے بیٹے کی شادی کے لیے جمع کی گئی رقم میں سے کچھ پیسے نکالے تاکہ اپنے لیے کفن خرید سکیں تو ان کا دل ایسے کانپ رہا تھا جیسے وہ کسی اور کا حق مار رہی ہوں۔ ان پر ایک شدید احساس جرم طاری ہوگیا تھا جسے جھٹکنا آسان نہیں تھا۔ تین دن تک انھوں نے وہ پیسے اپنے سیراگو سے باندھ کر رکھے اور ان کی حفاظت کی۔ لیکن ان کی ممتا بھی ان کی دلی خواہش کو دبانے میں ناکام رہی۔ ان پر جیسے ایک ضد سوار ہوگئی تھی، جس نے ان کی خواہش کو مزید مستحکم کردیا تھا۔ اُنھوں نے اپنی ساڑی کے سرے پر بندھے ہوئے پیسوں کو مضبوطی سے دبوچا اور سبک رفتاری سے شازیہ کے گھر کی طرف چلنے لگیں۔ اس دن شازیہ کا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ خُوشی، جشن اور دعوت زوروں پر تھی۔

وہ مدعو نہیں تھیں۔ کوئی ایسا نہیں تھا جو آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتا اور کہتا، ارے! آپ آگئیں! نہ ہی کوئی ایسا تھا جو کہتا کہ ، آئیے! کھانا کھاتے ہیں۔ کسی سے بھی مہمان نوازی کی کوئی توقع نہیں تھی۔ اُنھیں تو اس بات کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا کہ جب کسی کا عزت و احترام سے استقبال  کیا جاتا ہے اور خاطر تواضع کی جاتی ہے تو کیسا لگتا ہے۔ اُنھیں اپنی زندگی میں کبھی اس بات کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن انھیں بے عزتی کی بھی پہچان نہیں تھی۔ وہ جب سے وہاں آئی تھیں، مسلسل کام کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ رات تک تو  ایسا لگ رہا تھا جیسے چینی کی چمچماتی سفید پلیٹوں کو دھوتے دھوتے اُن کے ہاتھ ٹوٹ کر گر جائیں گے۔ بریانی کی چکنائی صاف کرنا اتنا آسان تو نہیں ہوتا نا؟ جب دعوت ختم ہوئی، مہمان جانے لگے اور  سب کھانا کھا چکے تب اُنھوں نے گھر کے دالان میں سیمنٹ کےفرش پر بیٹھ کر چند نوالے کھائے تھے لیکن تب بھی ان کی ساری توجہ صرف شازیہ پر ہی تھی۔ کتنی خوش قسمت عورت ہے۔  نصیب والی ہے۔ یاسین بوا دل ہی دل میں دُہرائے جارہی تھیں۔  وہ اِس فکر میں بھی تھیں کہ شازیہ کب فارغ ہوگی تاکہ وہ اپنے دل کی بات اُس سے کرسکیں۔ اسی لیے اُن کی پوری توجہ شازیہ پر مرکوز تھی، اس کی ایک ایک حرکت کو وہ غور سے دیکھ رہی تھیں۔

پتا نہیں شازیہ کب فارغ ہوگی؟ انھوں نے سوچا۔ وہ سب سے مل مل کر، اپنے لاتعداد رشتے داروں اور دوستوں سے دُعائیں اور تحفے وصول کر کے تھک چکی تھی۔ کچھ لوگ تو جب اس  سے ملنے پاس آتے اور اسے گلے لگاتے تو اپنی ہی  کہانی سُنانے لگتے اور خُوب لجلجا کر اُس سے دُعا کی درخواست کرتے۔ شازیہ آپا! میری چھوٹی بیٹی کے لیے کوئی مناسب رشتہ نہیں مل رہا۔ حج کے دوران اُس کے لیے دُعا کیجیے گا۔

 دوسری بولتی، میری نند کو کینسر ہوگیا ہے۔ دُعا کیجیے گا کہ اللہ اسے صحت یاب کردے۔

میرے بیٹے کو ملازمت نہیں مل رہی۔ وہ بہت پریشان ہے۔

لوگوں کی فرمائشیں بڑھتی جارہی تھی۔  لیکن شازیہ مسلسل مسکرا رہی تھی اور سب کو ایک ہی جواب دے رہی تھی  کہ ان شاء اللہ! میں آپ کے لیے دُعا کروں گی۔ البتہ یہ صاف نظر آرہا تھا  کہ وہ بے حد تھک چکی ہے۔

دعوت دوپہر کی تھی اور رات گئے تک مہمانوں کا تانتا بندھا رہا تھا  لیکن اس نے ایک بار بھی شکایت نہیں کی  اور  سب کو خُوش دِلی کے ساتھ الوداع کہا۔ یاسین بوا مسلسل برتن مانجھنے میں لگی ہوئی تھیں۔ وہ برتن صاف کرتیں ، پھر جھاڑو لگانے لگتیں اور بس صبر سے اپنی باری کا انتظار کرتیں۔

تقریباً رات گیارہ بجے، جب تھکی ماندی شازیہ تمام مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد صوفے پر بیٹھی تو اس نے اپنے پاؤں نرم گداز قالین پر پھیلا لیے۔ تب اس کی نظر یاسین بوا کے سائے پر پڑی جو بیٹھک کے دروازے کے قریب کھڑی ہوئی تھیں۔  بوا، شازیہ کو دیکھ کر ہڑکنے لگیں، ایّو! کیا حال کرلیا ہے، ایک دن میں، تھک کے چور ہوگئیں ۔ وہ شازیہ کے لیے واقعی پریشان تھیں۔ اس کی تھکن دیکھی نہیں جارہی تھی اُن سے۔ اُنھوں نے اپنے ہاتھ جلدی جلدی اپنے سیراگو  سے پونچھے اور اپنی انگلیوں کے بل چلتے ہوئے اس کے پاس  آ کر بیٹھ گئیں، ان کی پوری کوشش تھی کہ ان کے گرد آلود پیر اور پھٹی ہوئی ایڑھیاں، شازیہ کے قیمتی قالین سے دُور رہیں۔ تم کب آئیں بوا؟ شازیہ نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔

شازیہ کی توجّہ پاکر وہ خُوشی سے نہال ہورہی تھیں، جلدی سے بولیں، ہائے بچّی! میں تو کب کی آئی ہوئی ہوں۔۔

ااچّھا! میں نے تو شام سے ایک بار بھی تم کو نہیں دیکھا، شازیہ بولی اور پھر اپنا لہجہ کچھ نرم کر کے بولی، تم نے کھانا کھایا؟؟

اہاں بی بی! میری زندگی کی یہ ڈور تمھارے گھر سے ملنے والی روٹی سے ہی بندھی  ہے۔ خدا کرے تم مٹی کو بھی ہاتھ لگاؤ تو سونا بن جائے۔ تمھارا  گھر پھلے پھولے ہمیشہ آباد رہے۔۔

شازیہ کو اطمینان کا احساس ہونے لگا ۔ بوا! ابھی تو کافی دیر ہوگئی ہے۔ تم گھر کیسے جاؤ گی؟ اس خالص عورتوں والی فکر اور اندیشے کا جواب بوا نے کچھ یوں دیا، الطاف نے کہا تھا کہ وہ اپنا رکشہ لے کر آئے گا اور مجھے گھر لے جائے گا۔ بس جیسے ہی آتا ہے، میں  نکل جاؤں گی۔۔

شازیہ نے دیکھا تھا کہ بوا سارا دن مسلسل کام میں لگی رہی تھیں۔ اس نے بھاری قدموں سے اپنے کمرے کی راہ لی اور کچھ پیسے لے کر باہر آگئی۔ یہ لے لو بوا، کچھ خرچہ پانی ہے۔ رکھ لو۔ ہم تین دن بعد حج کے لیے جارہے ہیں، تقریباً پینتالیس دن بعد لوٹیں گے۔ بس اللہ تبارک و تعالی اپنی بارگاہ میں ہمارا حج قبول فرمالے۔ ہمارے لیے دُعا کرنا۔ پھر اس نے بوا کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے اور پیسے ان کی مٹھی میں رکھ دیے۔ یاسین بوا کے لیے یہ چھوٹی بات نہیں تھی۔ وہ بے حد جذباتی ہورہی تھیں ۔ شازیہ ان جیسی حقیر فقیر کو اتنی اہمیت دے رہی تھی، اتنے دوستانہ انداز اور ہم دردی سے پیش آرہی تھی۔ ان کی اوقات ہی کیا تھی؟ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرنے لگیں۔ انھوں نے شازیہ کے دیے ہوئے پیسے ہاتھ میں نہیں پکڑے بلکہ اپنے سیراگو میں بندھی دو تین گانٹھیں کھول کر اس میں سے چند مڑے تڑے نوٹ نکالنے لگیں۔ پھر اُنھوں نے اپنے ہاتھ شازیہ کی طرف بڑھائے اور اس سے بھرپور لجاجت کے ساتھ گزارش کرتے ہوئے بولیں، میری اوّا! یہ چھے ہزار روپے رکھ لو۔ تم حج پر جا رہی ہونا، وہاں سے میرے لیے کفن لے آنا۔ آب زم زم میں ڈوبو کر۔لادو گی نا؟ ہوسکتا ہے، اس مقدس کفن کی برکت سے ہی مجھے جنت مل جائے اور ربِّ کریم مجھے معاف کردے۔۔

ایک لمحے کے لیے تو شازیہ کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا کہے۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ بس ایک کفن ہی تو لانا ہے، کون سی بڑی بات ہے؟ اس نے سوچا تھا، ایّو! ایک کفن ہی تو چاہیے بیچاری کو۔ تھوڑے زیادہ پیسے بھی لگے تو لے دیں گے۔ اس نے کتنا آسان سمجھا تھا اس کام کو۔ جیسے اچانک انھوں نے پوچھا، اس نے بنا سوچے سمجھے ہاں کہہ دی۔

وہ تو جب بوا کے ہاتھ سے پیسے اس نے اپنے ہاتھ میں لیے تو اسے احساس ہوا کہ غریب لوگوں کے پیسے بھی ان ہی طرح ہوتے ہیں، ٹوٹے، بکھرے، ریزہ ریزہ اور چپچپے ۔جیسے کملائے ہوئے پُھول۔ وہ کبھی کبھی سوچتی تھی کہ شاید اگر غریب کے ہاتھ میں کڑک اور نئے نوٹ بھی تھما دیے جائیں تو وہ بھی ان کے ہاتھوں میں جا کر کملا جائیں گے، بد شکل ہوجائیں گے اور آج اسے یقین ہوگیا تھا۔ ٹھیک ہے بوا، اب تم جاؤ۔ چلو۔ اس نے بوا کو زبردستی رخصت کیا اور فوراً اپنے محل نما کمرے میں آکر غسل خانے کی طرف بھاگی۔ بوا کے تھمائے ہوئے پیسے اس نے واش بیسن پر پھینکے اور اپنے ہاتھ صابن سے رگڑ رگڑ کر دھونے لگی اور پھر آکر اپنے بستر پر لیٹ گئی۔

شازیہ کویاد نہیں تھا کہ اس نے بعد میں بوا کے دیے ہوئے پیسے بیسن پر سے اُٹھائے بھی تھے یا نہیں۔ مقرّرہ دن پر حج کمیٹی کی جانب سے مختص کی گئی صبح کی فلائٹ میں سوار ہو کر وہ مدینہ پہنچے۔ نیا ملک، نیا ماحول، مقدّس مقامات کی زیارتیں اور واجب چالیس نمازوں کے دوران ، آٹھ دِن کیسے گزرے؟ اُسے پتا ہی نہیں چلا۔ سبحان نے یوں تو شاپنگ کرنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ لیکن شازیہ کو اِن پابندیوں کی کوئی پروا نہیں  تھی۔ اُس کا  ماننا تھا کہ اُصول و قوانین ہوتے ہی اس لیے ہیں، تاکہ ان کو توڑا جا سکے اور اس کو تو جو کرنا ہوتا تھا، وہ کر کے رہتی تھی۔ وہ بھی بِلا جھجک۔  اور یہ صُورتِ حال بھی زیادہ مختلف نہیں تھی۔

پھر سبحان نے نیّت کا ذکر کیا۔ اُسے یاد دلایا کہ حج پر روانگی سے پہلے اُنھوں نے نیّت کی تھی کہ وہ حج کے فرائض  یکسوئی سے ادا کریں گے اور عبادت پر توجّہ رکھیں گے۔ اُس نے کہا تھا کہ تمھیں جو بھی خریداری کرنی ہے، وہ تم حج کے بعد کرلینا۔ کیوں کہ حج مکمل ہونے تک کوئی بھی دوسرا کام کرنا، اُن کی نیّت کے منافی ہوگا۔ جب وہ مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے تو  یہ  شازیہ کے لیے ایک ایسا یادگار سفر تھا کہ وہ اپنا گاؤں اور اپنا گھر تک بھول گئی تھی۔ اُس کے لیے مکہ میں رہنے کا تجربہ ناقابل فراموش تھا۔ انڈیا کی حج کمیٹی نے کئی عمارتیں کرایے پر لے رکھی تھیں۔ حجاج کرام کو اُن کے ادا کیے گئے کرایے کے مطابق کمرے الاٹ کیے گئے تھے۔ ہر دو کمروں کے  درمیان میں ایک غسل خانہ، ایک سانجھا باورچی خانہ بنایا گیا تھا اور ان کے لیے  ایک گیس سلینڈر اور چولہا، ایک فریج، ایک واشنگ مشین اور چند دوسری سہولتیں مہیا کی گئی تھیں۔ چوں کہ  شازیہ  کے میکے سے چار لوگ بھی اِس  سفر میں  اُن کے ساتھ شریک تھے، اِس لیے اُن سب کو ایک بڑا کمرا الاٹ کیا گیا تھا۔ رواج کے مطابق، اِس موقعے پر بھی ٹولی کی خواتین نے باورچی خانے کی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔ البتہ  ان کا زیادہ تر وقت نماز میں گزرتا یا پھر وہ مل جُل کر طواف کرنے چلی جاتیں یا ذِکر و اَذکار میں لگی رہتیں۔ غارِ حرا کی زیارت، جہاں رسول اللہ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تھی اور دیگر مقدّس مساجد کی زیارتوں  اور ان مقامات پر نماز پڑھنے کی سرگرمی بھی انھیں بے حد مصروف رکھتی تھی۔  سعودی حکومت اور دوسری بڑی کمپنیوں والے بھی اکثر نماز کے بعد بڑے بڑے ٹرکوں میں کھانے پینے کی چیزیں، جوس اور پانی کی بوتلیں بھر کر لے آتے اور کُھلے دِل سے حاجیوں میں تقسیم کرتے۔ ان کا ماننا تھا  کہ حجاج کرام، اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اس لیے اِن کی خاطر تواضع کرنا ثواب کا باعث  ہے اور حجاج کرام کو خُوش کرنے کا مطلب ہے ،  اللہ کو  خوش کرنا۔ غالباً اسی لیے ہر کسی کا برتاؤ ایسا تھا جیسے مہمان نوازی ہی زندگی کا بنیادی مقصد ہو۔

شازیہ اور اس کی ٹولی کے دوسرے لوگ شدو مد سے حج کے  ارکان  مکمل کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ایک دوپہر، جب وہ خانہ کعبہ سے ظہر پڑھ کر واپس آئی تو پتا نہیں دھوپ کی تیزی تھی یا کھانے کے بعد سونے کی عادت، اُس پر نیند کا غلبہ ہونے لگا۔ البتہ قیلولہ کے بعد اُٹھی تو خود کو تازہ دَم محسوس کررہی تھی۔  تھوڑی دیر میں عصر کی نماز کے لیے مسجد الحرام جانے کا وقت ہوگیا۔ وہ باتھ روم میں وضو کے لیے پہنچی لیکن کچھ دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ برابر والے کمرے میں رہنے والی زینب، ڈسپنسر سے پینے کا پانی غسل خانے کی  دس لیٹر والی بالٹی میں ڈال رہی تھی۔  شازیہ نے حیرت زدہ ہو کر ہوچھا، زینب! یہ کیا کررہی ہو؟؟

زینب نے ایک نظر اِدھر اُدھر دیکھا اور بولی، مجھے کفن دھونا ہے نا۔۔

اکیا کہا تم نے؟ شازیہ نے سوال کیا۔ اُس کا پارا چڑھ گیا۔ تم پینے کا پانی چوری  کررہی ہو۔ کیا یہ ٹھیک بات ہے؟ پھر اُس نے چیخنا شروع کیا تو زینب جلدی سے  بالٹی لے کر اپنے کمرے میں بھاگ گئی اور اپنی طرف کا دروازہ زور سے بند کردیا۔  شازیہ سمجھ گئی کہ یہ سب کیا ہورہا تھا۔  حاجیوں کو پانی فراہم کر نے کی ذمہ داری سعودی حکام کی تھی۔ پانی کی کمپنیاں بوتلوں میں پانی نہیں لاتی تھیں، بلکہ کعبہ کمپلیکس کے اندر زم زم کے کنویں سے پانی، ٹینکر میں بھر کر  پہنچایا جاتا تھا اور یہی پانی ان کے کمرے میں لگے ڈسپنسر میں بھی بھرا جاتا تھا۔ ان کے کمرے میں لگے ڈسپنسر میں دس سے پندرہ لیٹر پانی آتا تھا۔ جسے پانی والا ہر روز دوپہر میں تین بجے بھرنے کے لیے آتا تھا۔ شازیہ شاذ و نادر ہی اس ڈسپنسر سے پانی پیتی تھی۔ اکثر رات میں سبحان نماز سے واپسی پر پانچ لیٹر کی بوتل لے آتا تھا اور دونوں میاں بیوی اُسے ہی استعمال کرتے تھے۔

لیکن پھر بھی شازیہ کا غصے سے بُرا حال تھا۔ زینب کے بے تکے جواب نے اس کے غصے میں صرف اضافہ کیا تھا۔ اسے جیسے آگ لگ گئی تھی اور اس غصے میں اسے کچھ بھی نہیں سوجھ رہا تھا۔ وہ بس یہی سوچے جارہی تھی کہ پتا نہیں زینب نے چوری کیے ہوئے زم زم میں  کتنے کفن ڈال رکھے تھے۔ یا اللہ! کیا یہ زینب اپنے پورے خاندان کو زم زم سے دھلے ہوئے کفن میں دفن کرے گی؟ یہاں شازیہ یہ سب تصوّر کر کے تپ رہی تھی اور اس کا شوہر بیوی کی چیخ و پکار سُن کر دوڑا دوڑا باہر  نکل آیا تھا۔ لیکن اب تو شازیہ پر قہقہے طاری تھے۔ سبحان کو خیال ہوا کہ کیا واقعی چند لمحوں پہلے اُس نے شازیہ کی چیخ و پکار سُنی تھی۔ کیا ہوا شازیہ؟ کیوں ہنسے جارہی ہو؟ لیکن اس کی ہنسی بند نہیں ہوئی، اس نے چند لمحوں پہلے جو کچھ دیکھا تھا، پورا قصہ کہہ سُنایا اور بولی، ذرا دیکھو تو جی! ان لوگوں کو حج کی حرمت کا رتّی برابر بھی لحاظ نہیں۔ یہ یہاں آئے ہوئے ہیں اور پھر بھی ان کے دل سے بے ایمانی اور چور بازاری نہیں نکلی۔ سبحان مسکرانے لگا اور بولا، تم نے یہ آج دیکھا ہے؟ میں تو جس دن پہنچا تھا، اس دن سے دیکھ رہا ہوں۔ اسی لیے تو میں نے ہمارے لیے  پانی خریدنا شروع کردیا تھا۔ چھوڑو بھی۔ اتنی سی بات کے لیے لڑائی کرنا ہمیں زیب نہیں دیتا۔۔

اسی لمحے اچانک شازیہ کو یاسین بوا کے کفن کی یاد آگئی۔ ارے ہاں جی، دیکھو تو، ہمیں یاسین بوا کے لیے بھی ایک کفن خریدنا ہے۔ آج جب ہم عصر پڑھ کر  آرہے ہوں گے، تب ہی لے لیں گے۔ شازیہ بولی اور فوری طور پر اپنا وعدہ نبھانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ سبحان نے بھی سرہلادیا اور وہ جلدی جلدی تیاری کر کے باہر نکل گئے کیوں کہ عصر کی نماز کے لیے دیر ہورہی تھی۔ جیسا کہ توقع تھی، جس وقت وہ لوگ نماز  کے لیے پہنچے، حرم نمازیوں سے کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ دستور کے مطابق، مرد و عورتیں اپنی اپنی صفیں دُرُست کرنے لگے۔  وہ سب مسجد کے ستونوں کے درمیان ہاتھ باندھے مودٔب کھڑے تھے۔ چوں کہ وہ لوگ تاخیر سے یہاں پہنچے تھے، اس لیے انھیں مسجد کے وسیع احاطے میں کافی پیچھے جگہ ملی تھی اور دونوں میاں بیوی آگے پیچھے جائے نماز بچھا کر کھڑے ہوگئے تھے۔ البتہ یہ جگہ بھی جلد ہی دیر سے آنے والوں سے  بھر گئی۔ آج دھوپ بھی کافی تیز تھی۔ دھوپ میں سایہ فراہم کرنے کے لیے حرم میں جابجا خود کارچھتریاں  لگی ہوئی تھیں۔ ان کا مہربان سایہ یوں پھیلا ہوا تھا جیسے اپنے پروں میں سب کو سمیٹ لینا چاہتا ہو۔ جب سورج ڈھل جاتا تو یہ پَر سمٹ کر مسجد کے ستون بن جاتے۔ شازیہ کو یہ چھتریاں ہمیشہ دلچسپ لگتی تھیں۔ 

عشاء کی نماز کے بعد وہ کعبہ کمپلیکس سے نکلے۔ ان کے ساتھ سڑک اور فٹ پاتھ پر لاکھوں لوگ کندھے سے کندھا ملائے چل رہے تھے۔ سبحان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ شازیہ کو یاسین بوا کا کفن دلانے کے لیے کہاں لے کر جائے۔ دکان کہاں ہوگی یہ تو معلوم نہیں تھا، اس لیے وہ بس اپنی بیوی کا ہاتھ تھام کر چلتا جارہا تھا۔ تاکہ اِس بھیڑ میں اُس سے بچھڑ نہ جائے۔ یہاں آنے کے بعد سے اُسے شازیہ کا ہاتھ پکڑ نے کی عادت پڑ گئی تھی۔ وہ اکثر اُس کی کمر میں بھی ہاتھ  ڈال لیا کرتا تھا، بنا کسی شرم یا جھجک کے۔  پھر اُسے اپنی رفتار بھی کچھ مدھم رکھنی پڑتی تاکہ خِراماں خِراماں چلنے والی بیوی کا ساتھ نبھا سکے اور اُسے پیچھے نہ چھوڑ دے۔ شازیہ کو اندر لے کر جانے سے پہلے وہ ہر دکان کے سامنے رُکتا اور دکان دار سے پوچھتا کہ کیا اُن کے پاس کفن ہے اور پھر آگے بڑھ جاتا۔  وہ پوری دل جمعی سے کفن تلاش کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود ایک قالین کی دکان کے سامنے آتے ہی شازیہ کی ساری توجّہ اُڑن چھو ہوگئی۔ اُن قالینوں میں پتا نہیں ایسا کیا تھا کہ شازیہ بالکل کھو گئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کبھی اِس دکان سے باہر نہیں نکلےگی۔ وہ ان دیدہ زیب قالینوں کی دل کشی میں غرق  تھی۔ اِن قالینوں کے رنگ، نقش و نگار اور نفیس بناوٹ نے اُس کا دل جیت لیا تھا۔ اور پھر، اپنے شوہر سے کوئی بھی مشورہ کیے بغیر، اس نے ایک قالین کی قیمت پر مول تول بھی شروع کردی۔ ایک ہی پل میں سبحان کی خریداری پر پابندی والی باتیں ریت کا ڈھیر ثابت ہوگئیں۔  اُسے اب نیّت کا خیال بھی نہیں رہا تھا۔ یہ  پروا بھی نہیں تھی کہ ان باتوں، وعدوں کا کیا ہوگا، جو اس نے اپنے شوہر کے ساتھ کیے تھے؟ ویسے بھی ایسی جذباتی باتیں کس کو یاد رہتی ہیں؟ سب کچھ ہوا ہو چکا تھا۔  اُس نے وعدہ کیا تھا کہ حج مکمل ہونے کے بعد وہ جتنی چاہے، خریداری کر سکتی ہے، لیکن اب یہ وعدہ یاد دلانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔  اُس نے کئی بار شازیہ کو دکان سے باہر لے جانے کی کوشش کی لیکن کوئی ترکیب کارگر نہیں ہوئی۔

ہر چیز اور ہر شخص سے بے نیاز ہوکر وہ بس اپنے ترک قالین میں کھوئی ہوئی تھی، جو اس کے دل کو بھاچکا تھا۔ آخر ہار مان کر سبحان نے دکان دار کو سرگوشی کی، کیا یہاں پر کہیں کفن مل سکتا ہے؟  دکان دار فوراً ہی پلاسٹک کی تھیلی میں سلیقے سے لپٹا ہوا ایک کفن لے آیا، جو بالکل کسی مردہ جسم کی طرح وزنی  تھا۔ سبحان نے ایک بار پھر شازیہ کی توجّہ اپنی جانب مبذول کرنے کی کوشش کی۔ وہ سیدھے ہاتھ میں اپنا پسند کیا ہوا قالین تھامے ہوئے تھی، اس لیے بس بائیں ہاتھ سے کفن اُٹھایا، آئی اپّ! کتنا بھاری ہے یہ۔ ہم اسے لے کر کمرے تک کیسے جائیں گے؟ اس نے کہا اور فوراً ہی کفن کا معاملہ رفع دفع کر کے قالین کی طرف متوجّہ ہوگئی۔

کچھ وقت لگا، لیکن شازیہ کی خریداری مکمل ہوگئی۔ سبحان نے رقم اپنی جیب سے نکالی، گن کر دکان دار کو تھمائی اور جیسے ہی دکان دار نے قالین اس کے کندھے پر رکھا، وہ باہر نکل آیا۔ یہاں سامان اُٹھانے کے لیے قلی یا رکشہ ٹیکسی کا تصوّر تو تھا نہیں۔  اس لیے اپنا سامان خود ہی قلی کی طرح اُٹھا کر جانا پڑ رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں مسلسل یہ دُعا کررہا تھا کہ اُسے اِس حالت میں کوئی نہ دیکھے لیکن اتنے ہی زیادہ جان  پہچان والے  لوگ اسے آج راستے میں مل رہے تھے۔  آدھے راستے تک تو شازیہ کو بھی کچھ احساس ہوا اور اس نے ہم دردی جتائی، بہت بھاری ہے نا یہ رے؟ لیکن اس نے کوئی بھی جواب نہیں دیا۔ وہ اتنے غصے میں تھا کہ اسے لگ رہا تھا کہ شاید آج شازیہ کی دُھنائی کر کے رکھ دے گا، لیکن اس نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا اور کمرے میں داخل ہوتے ہی قالین ایک کونے میں پٹخ  کر لمبی سانسیں لے کر خود پر قابو رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ کوئی اور موقع ہوتا تو اور کچھ نہیں تو اُسے غصے میں گھورتا اور شاید کچھ کھری کھری بھی سُنا دیتا لیکن وہ احرام کی حالت میں تھا، حج ادا کرنے آیا ہوا تھا اور ان کے اڑوس پڑوس میں سب شازیہ کے رشتے دار ہی ٹھہرے ہوئے تھے، ایسے میں  چیخ و پکار کسی طور بھی مناسب نہیں تھی۔  اس لیے سبحان نے خود کو ٹھنڈا رکھا۔  

آخرکار حج مکمل ہوا۔ کچھ کوتاہیاں ہوئی تھیں، لیکن وہ کافی حد تک مطمئن  تھے۔ منیٰ سے واپس آتے ہی شازیہ بستر پر لیٹ گئی۔ اس پر شدید بے چینی اور تھکن طاری تھی۔ پھر اس کی طبیعت بگڑی، بلڈ پریشر شوٹ کرگیا اور اسے دو دن اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اسپتال سے فارغ ہونے کے بعد بھی وہ مزید ایک دن بستر پر پڑی رہی، تب کہیں جاکر کچھ آرام آیا اور بی پی قابو ہوا۔  لیکن اسے طبیعت خراب ہونے سے زیادہ وقت ضائع ہونے کا افسوس ہورہا تھا کیوں کہ وہ بیماری کی وجہ سے کچھ بھی خریداری نہیں کرسکی تھی۔ وہ مسلسل سبحان کو یقین دلانے کی کوشش کررہی تھی کہ اس کی طبیعت ٹھیک  ٹھاک ہے۔  دوسری طرف سبحان، خریداری کو ٹالنے کے لیے  حیلے بہانے سوچنے میں مصروف تھا۔ اُسے پیسے کی فکر نہیں تھی، بس سفر کے دوران اضافی سامان کی وجہ سے جو مشکل ہوتی ہے، اس سے سخت بیزاری ہورہی تھی۔ وہ بس اس جھنجھٹ سے بچنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ شازیہ کو مایوس  بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کی کسی بات سے اگر شازیہ کی طبیعت دوبارہ بگڑ جاتی تو وہ کیا کرتا؟ بس یہی سب سوچ کر اس نے اپنے سارے حیلے بہانے ترک کردیے۔ ویسے بھی شازیہ کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔

اپنی خریداری کے دوران یاسین بوا اور ان کے کفن کا خیال ایک بار بھی شازیہ کے ذہن سے نہیں نکلا۔ اُسے بار بار اُن کے کفن کا خیال آتا تھا لیکن وہ ہر بار اِس خیال کو جھٹک دیتی تھی یا ٹال دیتی تھی۔ شاید اسی لیے آہستہ آہستہ یہ خیال آنا بھی بند ہوگیا اور پھر جیسے یاسین بوا اور اُن کے کفن کا خیال اُس کے ذہن سے یکسر فراموش ہوگیا۔ ویسے بھی اِس جادوئی دُنیا میں، کفن جیسی چیز کے بارے سوچ سوچ کر اپنا دِل خراب کرنے کا وقت کس کے پاس تھا؟ انڈیا میں کفن نہیں ملتے کیا؟ بلکہ کفن تو ہمارے گاؤں میں بھی آرام سے مل جاتا ہے۔ بول دوں گی کہ مکہ میں کفن نہیں ملا۔  اوہ! لیکن  حج سے واپس جانے کے بعد جھوٹ بولنا اچھا نہیں لگے گا۔ اُس نے سوچا اور فوراً اپنے گالوں کو پِیٹ کر توبہ! توبہ! کرنے لگی اور دل ہی دل میں جھوٹ بولنے سے بھی توبہ کی۔ اُسے کیا پتا تھا کہ یاسین بوا کی خواہش، اُس پر  اتنا بڑا عذاب بن کر مسلط ہوجائے گی۔

اب، یاسین بوا کے انتقال کی خبر سُن کر شازیہ کا دِل کانپ رہا تھا۔ اُن کی ادھوری رہ جانے والی خواہش کا بوجھ اس پر لرزہ طاری کررہا تھا۔ ایّو! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ان کی ادھوری خواہش کا بوجھ، ناقابل تلافی بن جائے گا تو شاید میں کسی بھی طرح ان کا کفن لے آتی۔ بھلے ہی کتنی ہی پریشانی اُٹھانی پڑتی۔

ان لوگوں نے وہاں سے واپسی پر اتنی خریداری کی تھی کہ سامان بہت بڑھ گیا تھا۔ اتنا زیادہ کہ اپنا سامان ٹولی کے دوسرے لوگوں کے سوٹ کیسوں میں رکھوانا پڑا تھا اور اس کے بعد بھی سامان  ٹھکانے لگانا مشکل ہوگیا تھا۔  سبحان ہی جانتا تھا کہ اس نے سب کچھ کیسے سنبھالا تھا۔ کیا پانچ کلو زم زم اور اتنی ساری کھجوریں باقی سامان کے ساتھ رکھنا آسان کام تھا؟ اور وہ کیا کررہی تھی؟ بس اپنا برقعہ پہنا، اپنا ہینڈ بیگ اُٹھایا اور ہر کام کے لیے سبحان سبحان کی پکار مچادی۔  سبحان بے حد چڑچڑا ہو رہا تھا۔ آخرکار، بڑی مشکل اور تگ و دو سے کسی نہ کسی طرح ان کا سارا سامان بندھا اور وہ اپنے سارے سوٹ کیسوں اور خود کو لے کر جہاز میں سوار ہوگئے۔

واپس آنے کے بعد ایک ماہ تک شازیہ سامان بانٹتی رہی لیکن سامان سمیٹنا مشکل ہوگیا تھا۔ پہلے تو واپس  آتے ہی  وہ بیمار پڑ گئی اور تقریباً تین دن تک بستر سے نہیں اُٹھ سکی۔  سفر کی تھکان نے اسے ہلکان کردیا تھا۔ اس کے بعد اس نے آہستہ آہستہ سامان کھولنا شروع کیا۔ سب سے پہلے اپنے قریبی رشتے داروں کے لیے وہ جو سونے چاندی کے قیمتی تحائف لائی تھی، وہ بھجوائے۔ اس کے بعد اپنا عمدہ قالین کھول کر دیکھا اور اسے نہارنے لگی۔ اِس دوران اس نے ایک بار بھی محسوس نہیں کیا کہ سبحان  اِن چیزوں میں کوئی دل چسپی نہیں لے رہا، بلکہ وہ تو اِن چیزوں کو دیکھ کر دُور چلا جاتا تھا اور شدید اکتاہٹ کا مظاہرہ کرتا تھا۔ قالین کے بعد اُس نے کپڑے اور کھلونے نکالے اور باری باری اُن لوگوں کو بھجوا دیے جن کے لیے وہ یہ چیزیں لائی تھی۔ اس کے کچھ جاننے والیوں نے کچھ خاص قسم کے ڈیزائن والے عبایا منگوائے تھے، کسی نے کسوٹی کے کام والے برقعے لانے کو کہا تھا۔ کسی کی فرمائش تھی کہ ان کے پسندیدہ رنگ کے ملبوسات لائے جائیں اور کچھ نے تو اپنا مطلوبہ سامان منگوانے کے لیے پیسے بھی دیے تھے۔ باقی سب کے لیے وہ ایک جائے نماز اور تسبیح لائی تھی۔ جو چند کھجوروں اور زم زم کی بوتل  کے ساتھ تبرکاً  بھجوائی گئی تھیں۔ ویسے تو یہ کام اُس نے خود اپنے ہاتھ سے نہیں کیے تھے لیکن اسے ہر کام اپنی نگرانی میں کروانا پڑا تھا اور اس تمام سرگرمی نے اسے تھکا کر رکھ دیا تھا۔ اسی لیے تو یہ سب کام نمٹاتے ہوئے اسے ایک مہینہ لگ گیا تھا۔

عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو حج سے واپس آتے ہیں، اُن کی شخصیت نورانی ہوجاتی ہے۔ اور تاکہ یہ کیفیت ختم نہ ہو، جو خانہ کعبہ میں قیام کے دوران ان پر طاری تھی،  حاجی چالیس دن تک اپنے گھر میں سکونت اختیار کیے رہتے ہیں۔ شازیہ نے بھی چالیس دن کا یہ وقت اپنے گھر میں گزارنے کا عہد کیا تھا۔ اپنی عادت کے مطابق، اس دوران یاسین بوا کئی بار شازیہ کے گھر آئیں اور اپنی آمد کا اعلان کیے بغیر واپس چلی گئیں۔ ہر بار ہی شازیہ یا تو سو رہی ہوتی، یا آرام کررہی ہوتی، یا نماز پڑھ رہی ہوتی، یا کسی ا ور اہم کام  میں لگی ہوتی۔ ہر بار یاسین بوا کو اطلاع پہنچا دی جاتی اور یاسین بوا اپنی آنکھوں میں آنسو لیے نامراد لوٹ جاتیں۔ ایک طرف وہ اپنا کفن دیکھنے کے لیے بے چین تھیں۔ دوسری طرف ان کی یہ خواہش بھی تھی کہ وہ حجن شازیہ کے قریب رہ  کر اس پر برسنے والی رحمت کو محسوس کرسکیں۔  وہ شازیہ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں تھامنا چاہتی تھیں۔ لیکن وہ بس انتظار ہی کرتی رہ گئیں۔ ایک طویل انتظار کہ پتا نہیں کب شازیہ ا ن کا تحفہ انھیں سونپ دے۔

پھر آخرکار ایک دن شازیہ اُن کے سامنے ظاہر ہوئی۔ وہ یاسین بوا کے انتظار  سے بہ خُوبی واقف تھی، ان کی بے چینی کی چشم دید گواہ تھی۔ وہ ابھی ابھی نہا کر نکلی تھی۔ اس کے بال گیلے ہورہے  تھے اور اس نے آسمانی رنگ کا چوڑی دار پاجامہ اور قمیض پہن رکھی تھی جس کے ساتھ اس نے بڑا دل فریب، کسوٹی کے کام والا نفیس سا دوپٹہ سر پر اوڑھ رکھا تھا۔ اُس لمحے یاسین بوا کی خُوشی کا مانو کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، ایسا لگتا تھا جیسے خُوشی سے اُن کا دل بند ہوجائے گا۔ وہ دوڑیں اور انھوں نے جلدی سے شازیہ کے ہاتھوں کو چوم کر اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔ ایک حجن کے ہاتھوں کو چھو کر انھیں ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بھی پاک صاف اور نورانی ہوگئی ہوں۔ ان کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ شازیہ نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور اُن سے اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کردیں۔ کیسی ہو بوا؟ پھر وہ ہوا کے جھونکے کی طرح اُٹھی ا ور اپنے کمرے سے ایک جائے نماز ااور تسبیح لا کر بوا کی طرف بڑھادی، یہ لے لو، یہ میں تمھارے لیے لائی ہوں۔ لیکن جو چیز یاسین بوا دیکھنا چاہتی تھیں، وہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔  یہ وہ لمحہ تھا جب ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش۔۔۔ زم زم میں دُھلے ہوئے کفن میں لپٹ کر اللہ کے حضور پیش ہونے کی آخری خواہش، پوری ہونے والی تھی۔ اُنھوں نے تسبیح اور جائے نماز لینے کے لیے اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھایا۔ وہ بس شازیہ کو تکے جارہی تھیں۔ اس لمحے اُن کے دل پر ایسی چوٹ پڑی تھی کہ لگ رہا تھا جیسے  آنکھوں کی بینائی چلی گئی ہے۔  پتا نہیں کیسے اُنھوں نے اپنا حوصلہ جمع کیا اور شازیہ کو پکار کر پورے اعتماد کے ساتھ کہا، یہ سب نہیں چاہیے مجھے۔ بس میرا کفن دے دو۔ شازیہ کو تو اُمید بھی نہیں تھی کہ وہ ایسے، اُس سے براہ راست سوال کردیں گی۔ اُن کا سوال سُن کر ہی اُس کو شدید غصہ آگیا اور اُس نے اپنا غصہ چھپانے کی ذرا بھی کوشش کیے بغیر بوا کو لتاڑا، چھی! کیا کوئی جائے نماز لینے سے بھی انکار کرتا ہے؟ لیکن بوا نے کوئی ردِّعمل نہیں دکھایا۔ وہ اپنی بات پر ڈَٹی ہوئی تھیں۔ میرے پاس ابھی تک وہ جائے نماز ہے جو تمھاری ساس نے مجھے حج سے واپس آکر دی تھی۔ مجھے جب بھی وقت ملتا ہے، میں اُس پر ہی نماز پڑھ لیتی ہوں۔ اِس نئی اور خُوب صُورت جائے نماز کا میں کیا کروں گی؟ میری زندگی ہی کتنی ہے؟ اور کتنی نمازیں پڑھ لوں گی؟ دُنیا میں کچھ نہیں بچا میرے لیے۔ وقت ہی کتنا  ہے میرے پاس، جو ان چیزوں کی فکر کروں۔  اب تو بس مجھے ایک کفن چاہیے۔

شازیہ نے یاسین بوا کو ایسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چلتے ہوئے بھی اُن کی کمر ہمیشہ جھکی رہتی تھی۔ شازیہ کو دیکھ کر تو وہ ایک منٹ میں ہی  آسمان زمین کے قلابے ملا دیا کرتی تھیں۔ چٹ چٹ اُنگلیاں چٹخاتیں، اُس کی بلائیں لیتیں اور نظر بد سے بچاؤ کی دعائیں دیتے نہیں تھکتی تھیں۔ اللہ تجھے لمبی زندگی دے، تیری دولت میں اضافہ کرے، تیرا خاندان پھلے پھولے، صدا سہاگن رہے، ہمیشہ خُوش رہے، اللہ جنت میں محل دے۔

لیکن آج وہ بوا کہیں غائب ہوگئی تھی، جو ایک ہی سانس میں اس کو ہزاروں دُعائیں دیا کرتی تھی۔ یہ عورت جو اُس کے سامنے سینہ تانے سوال کررہی تھی، وہ تو کوئی اور ہی تھی۔  

شازیہ کے غصے کی انتہا نہ رہی۔ ایک پل کے لیے وہ یہ بھی بُھول گئی کہ کچھ عرصہ پہلے ہی حج کرکے آئی ہے۔ کیا کفن کفن کی رَٹ لگائی ہوئی ہے؟ مرنے کے بعد کس کو پڑی ہے کہ کیسا کفن ہے؟  کہاں کا کفن ہے۔ جب مرو گی تو کوئی نہ کوئی کفن دفن کردے گا تمھارا، اتنا ہنگامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تمھیں ہو کیا گیا ہے بوا؟ تمھارا دماغ وماغ تو نہیں چل گیا؟ کتنے پیسے دیے تھے تم نے مجھے؟ اُس سے دس گنا زیادہ میں  تمھارے منھ پر ماردوں گی۔ ٹھہرو ذرا۔  خبردار جو آئندہ اپنا منھ دکھایا مجھے۔ وہ دھاڑی اور غصے میں اُٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ جب وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں پانچ پانچ سو کے دو نوٹ تھے لیکن بوا کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ لیکن وہ شدید غصے میں تھی۔ اتنی آسانی سے بوا کو کیسے جانے  دیتی؟ وہ  ان کو ڈھونڈنے کے لیے باورچی خانے کی طرف دوڑی، گھر کے پچھلے حصے میں تلاش کیا، گلی میں بھی جھانکا لیکن بوا کہیں نہیں تھیں۔ پھر تھک کر دفع دور۔ بھاڑ میں جائے۔ کہا اور پیسے میز پر پھینک کر صوفے پر ڈھے گئی۔ جیسا کہ شازیہ چاہتی تھی، اِس واقعے کے بعد اُس نے یاسین بوا کو کہیں نہیں دیکھا۔ اُس نے سوچا، اچّھا ہی ہوا کہ جان چھوٹی۔ وہ  مطمئن اور پُرسکون بھی تھی لیکن یہ بھی سوچتی تھی کہ آخر بوا نے ایسا کیوں کیا؟ اکثر یہ خیال اس کے ذہن میں آجاتا اور دِل میں دبا ہوا  غصہ پھر سے اُبھرنے لگتا۔  لیکن جب بوا ہی غائب ہوگئی  تو وہ کر بھی کیا سکتی تھی؟ بس معاف کردے؟ بُھلادے؟ ہوسکتا ہے وہ عید یا بقرعید پر آجائے، معافی مانگنے،اپنی غلطی کا اعتراف کرنے، وہ سوچتی۔  اُسے اُمید تھی کہ جھکی ہوئی  کمر والی بوا جسے با آسانی ہاتھ کے نیچے رکھا جاسکتا تھا، یقیناً رمضان میں یہاں ضرور آئے گی۔ لیکن بوا کی عزت نفس کو اتنا معمولی سمجھنا غلطی تھی۔ وہ اپنے کفن کو ایک نظر دیکھنے کے لیے بے قرار تھیں، ایک بار چھونے کے لیے بے چین تھیں، جیسے کوئی دلہن اپنی منھ دکھائی کی منتظر ہوتی ہے۔ زیور اور عمدہ لباس میں نک سک سے تیار شازیہ نے جس طرح اُن کی عزت نفس کو کچلا تھا، جس طرح اُن کو نیچا دکھایا تھا، اِس رویّے نے اُن کے دل کو پاش پاش کردیا تھا۔

اُس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ یاسین بوا، مرنے کے بعد بھی اُسے ستائیں گی۔ اِس اچانک افتاد نے اس کے اعصاب شل کردیے تھے۔ اب وہ کیا کرسکتی تھی؟ اب اسے کیا نہیں کرنا چاہیے؟ اِس وقت تو یہ حال تھا کہ اگر بوا کا کفن ایک لاکھ کا بھی آتا تو وہ اسے لینے کو تیار تھی۔ لیکن مکہ سے لایا گیا، آب زم زب میں دُھلا ہوا کفن وہ کہاں سے لاتی؟ ’یا اللہ میں کیا کروں؟‘ وہ اس مشکل سے نکلنے کے لیے پل پل جیسے آگ میں جل رہی تھی۔ اب اپنی غلطی کو  کیسے سدھاروں؟  میں کیا کروں؟ میں کیا کروں؟ اس نے اپنا فون مضبوطی سے تھام لیا اور اوپر والی منزل پر موجود  ایک خالی کمرے کے کونے میں پناہ لی۔ پتا نہیں اس کو بخار چڑھ رہا تھا یا اس پر کپکپاہٹ طاری ہورہی تھی یا اس کے پسینے چھوٹ رہے تھے، اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ کیسی بد نصیبی تھی۔ اگر اُس غریب مسکین عورت نے حشر کے دن میرا دامن پکڑ لیا اور اللہ تعالیٰ سے انصاف طلب کیا تو کیا ہوگا؟ اُس وقت  اگر میں اپنی زندگی بھر کے اچّھے اعمال بھی پیش کردوں گی تب بھی میری غلطی کی معافی نہیں ہوگی۔ سب اعمال رائیگاں ہوجائیں  گے۔ شازیہ نے فکرمندی سے سوچا۔ آج اسے یقین ہوگیا تھا کہ وہ بوا سے  زیادہ غریب ہے۔ ان سے زیادہ بد قسمت ہے۔

وہ کفن اس عورت کی آخری خواہش تھا۔ ورنہ اس کا بیٹا کفن تلاش کرتے یہاں تک کیوں آتا؟ کیوں اپنی مری ہوئی ماں کا واسطہ دے کر کفن مانگتا؟ وہ نرمی سے بات کررہا تھا، لیکن اس کی آواز میں ایک ٹھہراؤ تھا،   اپنی ماں کی آخری خواہش پوری کرنے کے لیے، اس کے انداز میں ایک ثابت قدمی تھی۔ اب وہ کیا کرے؟ کیسے اس مشکل سے نکلے؟ اس کی ریڑھ کی ہڈی تک سنسناہٹ دوڑ گئی۔ اگر وہ کسی اور کفن میں اپنی ماں کو دفنانے پر تیار نہیں ہوا توبوا کا جنازہ کیسے پڑھا جائے گا؟ جماعت والےمیرے شوہر اور بیٹے کو مسجد میں بُلا کر سوال کریں گے۔ وہ سب کے سامنے شرمندہ، ہاتھ باندھے، سر جھکائے کھڑے ہوں گے۔ یہ تصوّر ہی شازیہ پر ہیبت طار ی کررہا  تھا۔ فرمان تو یہ بات کسی صُورت معاف نہیں کرے گا، وہ اس سے پیار کرتا تھا، لیکن اس کی کوئی بھی غلطی درگزر کرنے کا قائل نہیں تھا۔ وہ سوچ سوچ کر ہول رہی تھی۔ اُس کا دل کسی کٹی پتنگ کی طرح ڈول رہا تھا۔ پھر اس پر رِقّت طاری ہوگئی اور وہ اتنا روئی کہ اسے لگا کہ رو رو کر اُس کا دل پھٹ جائے گا۔ اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ لیکن کیا رونے سے اس کا دل کچھ ہلکا ہوا تھا؟ نہیں۔ غم و اندوہ کا ایک پہاڑ جیسے اس کے سینے پر دھر دیا گیا تھا۔ جو کچھ وہ محسوس کررہی تھی، وہ ناقابل بیان تھا، وہ سوچ رہی تھی کہ خدا کسی دشمن کو بھی ایسا وقت نہ دکھائے۔ اب تو جیسے سانس لینا بھی مشکل ہوگیا تھا۔

تقریباً دو گھنٹے تک اکیلے بیٹھ کر رونے اور رو رو کر خود کو بے حال کرنے کے بعد اسے اُمید کی ایک کرن نظر آئی۔  نچلی منزل سے سبحان کی آواز آرہی تھی۔ وہ زور زور سے اُسے پکار رہا تھا، شازیہ، شازیہ! میرے کپڑے کہاں ہیں؟ میرا قلم کہاں ہیں؟ میرا ناشتہ تیار نہیں ہوا؟ ویسے تو اس نے سبحان کی آواز ایک بار میں ہی سُن لی تھی، لیکن جواب دینے کے لیے اس کی آواز ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ صبا نے سبحان کو سنبھالا، ابا جی! امی گھر پر نہیں ہیں۔ صبح صبح کسی کے انتقال کی خبر ملی تھی، شاید وہیں چلی گئی ہیں۔۔

کیا؟ کس کا انتقال ہوا ہے؟ تمھیں کس نے بتایا؟ سبحان نے پوچھا۔

افرمان نے بتایا تھا مجھے۔ وہ بھی چائے اور ناشتے کے بغیر ہی چلے گئے۔ شاید امی ان کے ساتھ ہی گئی ہیں۔ اس نے اندازہ لگایا۔ شازیہ نے سکون کی سانس لی۔ ویسے تو وہ اچّھی طرح جانتی تھی کہ اس کی بہو صبا دُنیا جہاں کی چالاکی جانتی ہے، لیکن اس حرکت نے شازیہ کے دل میں اس کی تھوڑی جگہ بنادی۔ وہ  چپاتی اور پل لِیا جو کہ ان کے باورچی نے تیار کیا تھا، چینی کے برتنوں میں سجا کر نہایت سلیقے سے سبحان کو پیش کررہی تھی۔ کچھ دیر بعد اس نے سبحان کی گاڑی کو گھر سے سے باہر نکلتے سُنا۔  گاڑی کی آواز دروازے اور کمپاؤنڈ  سے باہر نکل کر آہستہ آہستہ کم ہوئی اور پھر ہر طرف خاموشی چھا گئی۔  اب رونے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وقت آچکا تھا کہ کچھ کیا جائے، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی راستہ نکالا جائے۔

شازیہ کو یاد بھی نہیں تھا وہ آخری بار اتنا کب روئی تھی۔ شاید کبھی نہیں۔ وہ تو اپنے ابا کی وفات پر بھی ایسے نہیں روئی تھی ۔ لیکن یہ بھی سچ تھا کہ ایسے موقعے پر اکثر اتنے سارے لوگ  اس کا دُکھ بانٹنے کے لیے اس کے ساتھ ہوتے تھے کہ اُن سب کی محبت سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا تھا۔ کوئی پانی پلاتا، کوئی عرق گلاب میں ڈوبے رومال سے آنسو پونچھتا، کوئی پیٹھ سہلاتا، کوئی گلے لگا کر تسلّی دیتا۔ دوست اور رشتہ دار بڑھ چڑھ کر دِل جوئی کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن آج اپنے ہی گھر کے ایک کونے میں چھپ کر بیٹھنا اور کسی بے یار ومددگار یتیم کی طرح رونا، یہ سب مکافاتِ عمل ہی تو تھا۔ لیکن اسے اب کفارہ ادا کرنا تھا۔ اس مشکل سے نکلنا تھا۔ فیصلہ کرتے ہی، اس نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو فون کرنا شروع کردیے۔

ممجھے ایک کفن چاہیے، زم زم میں دُھلا ہوا کفن۔ لوگ اس کے سوال پر حیران ہوتے اور چونک کر پوچھتے، شازیہ بول رہی ہونا؟ نہیں، ہمارے پاس تو کفن نہیں ہے۔ ایک کفن تھا، امی جب حج پر گئی تھیں، تب لائی تھیں، لیکن وہ تو ہم نے کسی کو دے دیا۔ جس کو ضرورت تھی، وہ مانگ کر لے گیا۔ ایک اور بولا، کیا؟ تم کو کفن چاہیے؟ اور پھر ہنسی اور قہقہے کے ساتھ جواب ملتے، نہیں بھئی۔ ہمارے گھر میں کوئی کفن نہیں ہے۔ ہم تو کبھی بھی کسی سے کفن لانے کا وعدہ نہ کریں۔ بہت بڑی ذمہ داری ہے یہ۔ ایک نے تو فلسفہ بھی جھاڑا، وہاں سے کفن لانے کی کیا ضرورت ہے؟  کیا فرق پڑتا ہے کہ کفن یہاں کا ہو یا وہاں کا؟ ہماراا نجام، ہمارے اعمال پر منحصر ہے ناکہ  کفن پر؟؟

تقریباً تمام رشتے داروں کی طرف سے انکار سُننے کے بعد آخرکار شازیہ نے صبا کی ماں کو فون کیا۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ بالکل بھی اس عورت کو  فون نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اور نہ ہی اس کا دل مان رہا تھا کہ اس سے بات کرے لیکن مجبوری تھی۔ رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے اپنی انا اور عزت نفس کو پسِ پشت ڈالا اور اصل مدعے پر آگئی، کیا تمھارے پاس مکہ کا کوئی کفن ہوگا؟ صبا کی ماں بھی شازیہ کو زیادہ پسند نہیں کرتی تھی۔  صبا کی کہی سنی کے مطابق  شازیہ ایک شیطان تھی۔ ایک سفاک عورت جو اپنی بہو پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے سے کبھی نہیں چوکتی۔  ایسی ڈائن  جس کی زندگی کا مقصد بس اپنی بہو کا لہو پینا تھا اور جو اس کی بیٹی کی خوشیوں کے راستے میں کنڈلی مار کر بیٹھی تھی ۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود صبا کی ماں کفن مہیا کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کرنے کے لیے تیار تھی۔۔۔اِس اُمید پر کہ  شاید  شازیہ اپنے لیے کفن مانگ رہی ہے۔ اس نے سوال بھی پوچھا تھا، کیا تم کو کفن چاہیے؟ اور چند لمحے خاموش رہی تھی تاکہ تم پر دیا گیا زور سمجھنے کا موقع مل سکے۔  پھر بولی تھی، لیکن تم کو کفن کیوں چاہیے؟ اس کا طنز صاف عیاں تھا اور بس شازیہ کی برداشت جواب دے گئی اور اس نے مزید ایک لفظ  بولے بغیر فون بند کردیا تھا۔ شازیہ کفن ڈھونڈ رہی ہے، یہ بات جلد ہی میکے سے نکل کر تمام رشتے داروں، یہاں تک دوستوں  تک پہنچ گئی تھی۔  اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی وہ اتنی مجبور اور لاچار ہوجائے گی اور ایک بار پھر آنسوؤں کا سیلاب بہنے لگا تھا۔

کچھ دیر بعد ایک بار پھر یہ سوچ کر کہ رونے کا کوئی فائدہ نہیں، وہ اپنے کمرے سے نکل آئی تاکہ کچھ کھا کر دوا لے سکے۔ لیکن کسی بھی طریقے سے اس کو سکون نہیں ملا۔ شکست خوردہ ہو کر سوچنے لگی، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میں یہاں سے ہی کفن خرید لوں اور اسے زم زم میں کھنگال کر دے دوں، گھر میں اتنا زم زم موجود ہے کہ کفن آسانی سے دھویا جاسکتا ہے لیکن۔۔۔ وہ مکہ سے لایا ہوا کفن نہیں ہوگا۔ وہ بالکل آگے کنواں اور پیچھے کھائی جیسی حالت کا شکار  تھی اور اب خود کو کوسنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا اس کے پاس، تھو! شازیہ۔ تف ہے تم پر۔ پھٹکار پڑے گی خدا کی۔ دکھ، لاچاری، بے عزتی، مجبوری ۔۔۔ اس افتاد کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا تھا۔

فرمان دوپہر کے تین بجے گھر واپس آیا۔ ڈائننگ ٹیبل کے پاس پہنچ کر اس نے صبا سے پوچھا، امی کہاں ہیں؟ وہ سمجھ چکی تھی اس کی ساس کا موڈ سخت خراب ہے۔ اس لیے منھ سے کچھ نہیں بولی اور بس آنکھوں سے شازیہ کے کمرے کی طرف اشارہ کردیا۔ فرمان تیزی سے کمرے میں چلا آیا۔ یوں تو اس کی ماں بالکل خاموش تھی، لیکن وہ ایک نظر دیکھتے ہی اس کی حالت سمجھ گیا تھا۔ وہ اپنی ماں کے برابر میں بیٹھا اور شازیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر پکارا،امی!  شازیہ کو ایک سہارا مل گیا تھا کہ جس کے کندھے پر سر رکھ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکے۔ وہ کتنی تسلّی دے رہا تھا اسے، سمجھا بھی رہا تھا لیکن اس کا دِل نہیں مانتا تھا۔ وہ بس  بلک بلک کر روئے جا رہی تھی۔  دوسری طرف صبا پر حیرت سوار تھی اور وہ سوچ رہی تھی کہ کیا میری ساس اتنی حساس ہیں کہ ایک ملازمہ کے انتقال پر رو رو کر بے حال ہورہی ہیں؟ وہ دروازے پر کھڑی اپنی ساس اور شوہر کو دیکھ رہی تھی۔ فرمان نے اسے دیکھا تو ہاتھ کے اشارے سے جانے کو کہا۔

ویسے تو وہ صبح شازیہ سے ناراض تھا ۔ ان کو ایسا وعدہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا اور اگر ہامی بھرلی تھی تو وعدہ نبھانا چاہیے تھا۔ اتنی بڑی بات تو نہیں تھی کفن لا کر دینا۔ وہ بھی اُس غریب عورت کو۔ اس کو شدید افسوس ہوا تھا۔ امی مجھے اور صبا کو بھی کفن لانے کا کہہ سکتی تھیں، پچھلے سال ہی تو ہم  عمرہ کے  لیے گئے تھے۔ میں خرید لاتا۔ اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کفن خرید کر لانا کون سی اتنی بڑی بات تھی کہ پوری نہ کی جاسکے۔ بس اسی لیے وہ شازیہ کو قصور وار ٹھہرا رہا تھا۔  لیکن اب کسی کو قصور وار ٹھہرا کر کیا فائدہ تھا؟ اس لیے وہ کسی طرح خود پر قابو پا کر معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کررہا تھا۔  اب تو اسے اپنی ماں کو اتنی تکلیف میں دیکھ کر افسوس ہورہا تھا۔ امی بس جانے دیں۔ کبھی کبھی کچھ واقعات ایسے ہوجاتے ہیں، جن پر ہمارا کوئی زور نہیں چلتا۔  اِنسان بھول جاتا ہے، کبھی کوشش کے باوجود کام نہیں بنتا، بس قسمت کی بات ہے۔ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ اتنا دِل پر نہ لیں۔ دیکھیں، پریشان نہ ہوں۔ میں گیا تھا الطاف کے ساتھ اس کے گھر۔ میں نے کفن دفن کا انتظام کروا دیا ہے۔ ابھی بھی فارغ ہو کر واپس آیا ہوں۔ میں نے کفن ،اگربتیاں اور عطر وغیرہ خرید کر پہنچادی تھیں اور جنازے کے لیے جس  چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے، سب کروا دیا تھا۔ اس نے قبرستان میں جگہ دیکھ رکھی تھی، وہاں قبر تیار کروا دی ہے اور میت کے نہلانے دھلانے کا انتظام بھی ہوگیا ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ گھر آکر کھانا کھالوں، پھر آپ کو بھی وہاں لے چلوں گا، آپ تدفین سے پہلے تعزیت کرلیجیے گا۔ مجھے معلوم ہے جب تک آپ وہاں جائیں گی نہیں، آپ کو صبر نہیں آئے گا۔ چلیں میرے ساتھ کھانا کھائیں، پھر ہم وہاں چلیں گے، ایک آخری بار یاسین بوا سے مل لیں گے۔

شازیہ کا دُکھ ایک بار پھر بڑھنے لگا۔ فرمان نے کھانے کی پلیٹ اس کے سامنے بڑھائی۔ اُس نے تھوڑے سے چاول کھائے تو فرمان نے صبا کو کہا، تمھیں جانے کی ضرورت نہیں۔ بس میرا اور امی کا جانا کافی ہے۔ اور اپنی ماں کو لے کر یاسین بوا کے گھر چلا آیا۔ اسے معلوم تھا وہاں کیا ہونے والا ہے۔ یاسین بوا کا چہرا دیکھتے ہی، وہ بہت رونے والی تھیں۔ وہ پہلے ہی اتنا رو چکی تھیں، اتنا تو شاید یاسین بوا کے بچّے بھی نہیں روئے ہوں گے۔ لیکن پھر بھی، اب بھی، وہ خود کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اُسے احساس ہورہا تھا کہ ان کا غم اتنی جلدی ختم ہونے والا نہیں تھا۔

جب وہ یاسین بوا کے گھر پہنچے تو سب کچھ ویسا ہی ہوا جیسا اس نےسوچا تھا۔ شازیہ کے افسوس کی کوئی انتہا نہیں تھی، اس کے آنسو خشک ہونا بُھول گئے تھے۔ جو بھی اس کا چہرا دیکھتا، اس کی سرخ آنکھیں دیکھتا، اس کا سوجا ہوا چہرا دیکھتا ، حیران ہوتا۔ بہت سے لوگ متاثر بھی  ہورہے تھے، کہہ رہے تھے کہ ہم نے کسی معزز خاندان کی خاتون کو ایک ملازمہ کے انتقال پر اتنا افسوس کرتے، روتے نہیں دیکھا۔ پتا نہیں ان کے رشتے کی نوعیت کیا تھی کہ وہ اتنا رو رہی ہیں۔  پھر سمجھ نہ پاتے تو ساری ذمہ داری خدا پر ڈال دیتے کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا معاملات تھے۔ لیکن شازیہ بھی  حقیقت سے واقف تھی: آج یہاں  یاسین بوا کی آخری رسومات ادا نہیں کی جارہی تھیں، یہ شازیہ کا جنازہ تھا۔

3 Banu Mushtaq

Banu Mushtaq is an Indian Kannada-language writer, activist, and lawyer from Karnataka. She is best known for Heart Lamp, a selection of her short stories translated by Deepa Bhasthi, which won the International Booker Prize in 2025.

3 Nuzhat Nisar

Nuzhat Nisar is an Urdu writer, editor, and translator based in Karachi, Pakistan. Her work has been published on various platforms, including Lakeer, Ananke, Akhbar-e-Jehan, Net Galley, and Hamara Internet. She studied Urdu, mass communication, and education at the University of Karachi and holds a master’s degree in political science. Nuzhat is dedicated to promoting the Urdu language through literary stories and translations. She is also a strong advocate for education reforms and equal opportunities for women. Her forthcoming books include Urdu translation collections of short stories by Turkish author Sabahattin Ali and the English novel, Unmarriageable, by Soniah Kamal.

3 Deepa Bhasthi

Deepa Bhasthi is a writer and literary translator based in Kodagu, southern India. Her columns, essays and cultural criticism have been published in India and internationally. Her published translations from Kannada include a novel by Kota Shivarama Karanth and a collection of short stories by Kodagina Gouramma. Her translation of Banu Mushtaq’s stories, Heart Lamp, was the winner of the International Booker Prize 2025.

Umer Sheikh is a Karachi-based writer and visual artist who drifts between photography, essays, and the hidden histories of cities. His work has appeared in Blue Orange Magazine and Dawn EOS, and was commended at the Photography Foundation Awards. He is drawn to moments where memory and urban life overlap, capturing stories in images, illustrations, and text. 

About the Art
Title: Festive town

“‘Festive town’ shows a building decked with lights to celebrate an occasion in my neighborhood. Drawn from memory, it reflects the enthusiasm by different occasions were celebrated collectively as a community, which in recent years has become less frequent as shared happiness and joy have been overshadowed by personal differences. With its whimsical colors, the artwork reminisces about a happier time.”

Scroll to Top