تعارف
میں بہت کم عمری ہی سے ترجمے اور مترجم کا ممنون رہا ہوں۔ بچپن میں عالمی ادب سے میری شناسائی دوسری زبانوں سے اردو میں کئے گئے تراجم ہی کے ذریعے ممکن ہوئی اور گذشتہ کئی سالوں سے میں خود بھی ترجمے کے عمل سے وابستہ رہا ہوں۔ ترجمہ زبان کے فروغ میں ایک نمایاں اور منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ ترجمہ اپنے ظاہری اور بنیادی مقصد یعنی ایک زبان میں لکھے یا کہے گئے ادب کو دوسری زبان اور اس کے بولنے والوں سے متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ اجنبی زبان اور کلچر سے آنے والے ادب کے ذریعے نئے خیالات کو نئے قارئین اور سامعین سے روشناس بھی کرواتا ہے اور اکثر ایسے نئے خیالات کو مقامی زبان میں وارد کرنے کی گنجائش پیدا کرنے کیلئے زبان میں وسعت پیدا کرنے کا بھی موجب بنتا ہے۔ یوں ترجمہ دو زبانوں اور ان کے بولنے والوں کے درمیان ثقافتی پل کا کام سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ زبان کی گستردش میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
آواز لکیر کے پلیٹ فارم سے شائع ہونے والا ایک نیا کالم ہے جس میں دنیا کی مختلف زبانوں میں لکھے جانے والے جدید اور ہم عصر ادیبوں کے ادبی کاموں کے پاکستان کی زبانوں میں تراجم کئے جائیں گے۔ میری کاوش اور خواہش یہ ہوگی کہ جس قدر ممکن ہو سکے اس کالم میں بڑی زبانوں کی بجائے ان زبانوں پر توجہ دی جا سکے جن کے ادب سے ہماری زبانیں بولنے والوں کو واقفیت کے کم مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ایک خواہش یہ بھی ہے کہ یہ تراجم اردو کے علاوہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں بولے جانے والی دوسری زبانوں میں بھی کئے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حد الوسع یہ کوشش بھی رہے گی کہ ترجمہ انگریزی یا کسی اور زبان کو پل بنائے بغیر براہ راست کیا جائے۔
An introduction
From a very young age, I have been grateful for translation and translators. In my childhood, my acquaintance with world literature was only possible through translations from other languages into Urdu, and for the past several years, I myself have been engaged in this work. Translation holds a distinctive and unique place in the development of language. This is because, in addition to its apparent and primary purpose – introducing literature written or spoken in one language to another language and its speakers – it also acquaints new readers and listeners with fresh ideas brought in through texts from foreign languages and cultures. Often, in order to make room for such new ideas in the local language, translation becomes a means of expanding that language’s expressive range. . Not only does it serve as a cultural bridge between two languages and their speakers, but also contributes to the enrichment of the language itself.
‘Avaaz’ is a new column published by Lakeer, in which the literary works of contemporary and modern writers from different languages of the world will be translated into the languages of Pakistan. My effort and wish is that, as far as possible, this column should focus not on the major languages, but rather on those whose literature our communities have fewer opportunities to encounter. And, as far as possible, directly from the source language, without using English as an intermediary.