FICTION

مروان

مصنف: غسان کنفاني ۔ اردو ترجمہ: حماد رند ۔ مصور: میسرۃ بارود

غسان کنفاني کے ناول "رجال فی الشمس" سے اقتباس

2025 ،"میسرۃ بارود،"لا زلت حیاََ
Maisara Baroud, "I'm still alive", 2025

مروان موٹے شخص کی دکان سے باہر نکلا جو لوگوں کو بصرے سے کویت سمگل کرتا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو ڈھکے ہوئے پرہجوم بازار میں کھڑا پایا۔ کھجوروں اور تنکوں سے بنی ٹوکریوں کی خوشبو پورے بازار میں پھیلی ہوئی  تھی۔ وہ اب کہاں کا رخ کرے اس بات کا اسے قطعاً اندازہ نہ تھا۔ ادھر دکان میں اس کے دل میں سالوں سے پلتی پکتی آخری امیدوں پر بھی پانی پھر گیا تھا۔ موٹے شخص کے آخری لفظ جو اس نے قطعی اور دوٹوک انداز میں کہے تھے مروان کو ایسے لگے تھے جیسے وہ پگھلے ہوئے سیسے میں کہے گئے ہوں۔

“پندرہ دینار! سنائی نہیں دیتا کیا؟”

“-لیکن”

ا“ارے، دیکھو، ہاتھ جوڑتا ہوں میں، اب رونا پیٹنا مت شروع کر دینا۔ تم سب یہاں آ کر بیواؤں کی طرح رونے دھونے بیٹھ جاتے ہو۔ میرے بھائی، میری جان، کسی نے مجبور نہیں کیا تمہیں کہ یہیں چِپکے کھڑے رہو۔ کسی اور سے جا کر کیوں نہیں پوچھ لیتے؟ بصرہ تو بھرا پڑا ہے سمگلروں سے!” سے

ظاہر ہے کہ وہ دوسروں کے پاس بھی گیا اور ان سے پوچھ تاچھ بھی کی۔ حسن نے جو کویت میں چار سال کام کر چکا تھا اسے بتایا کہ ایک شخص کو بصرے سے کویت سمگل کرنے کے بس پانچ ہی دینار لگتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں اور اسے چاہئے کہ وہ جب سمگلر کے سامنے جائے تو مرد سے بڑا مرد بنے اور دلاوری سے زیادہ دلاوری دکھائے ورنہ وہ اس پہ ہنسے گا، اسے دھوکا دے گا اور اس کی سولہ سال کی عمر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کٹھ پتلی بنا لے گا اسے۔

“کہتے ہیں کہ ایک بندے کی قیمت پانچ دینار ہی ہے۔”

پ“پانچ دینار؟ ہاہا! یہ تب کی بات ہے جب اماں حوا اور باوا آدم کا بیاہ ہوا تھا۔ بیٹا، ذرا مڑ کر تین قدم اٹھانا، تاکہ تم دھکے کھائے بغیر سڑک پر پہنچ جاؤ۔”۔

  اس نے اپنی تمام دلیری جمع کر کے زبان پہ رکھی۔ اس کی جیب میں سات دینار کے سوا اور کچھ نہیں بچا تھا۔ بس ایک لمحہ پہلے تک وہ اپنے آپ کو امیر سمجھ رہا تھا اور اب … اسے بچہ سمجھا جا رہا تھا؟

“تم مجھ سے پانچ دینار ہی لو گے بس خوشی سے۔”

“ورنہ کیا؟”

“ورنہ یہ کہ میں تھانے میں تمہاری خبر دے دوں گا۔”

موٹا شخص اٹھا اور ڈیسک کے گرد چکر لگا کر ہانپتے ہانپتے، پسینے سے شرابور مروان کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ اس نے ایک لمحے کیلئے اسے سر سے پاؤں تک گھورا پھر اس کا بھاری ہاتھ ہوا میں لہرایا۔

“!پولیس سے شکایت کرو گے میری؟ کسی…کی اولاد”

اس کا بھاری ہاتھ مروان كے رخسار پر آن گرا۔ تھپڑ کی بھیانک گرج میں جو اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھی اس کے لفظ غرق ہو گئے۔ ایک لحظے کیلئے وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا دو تین قدم پیچھے جا ہٹا۔ موٹے شخص کی غصے میں بھرائی ہوئی آواز اس کے کانوں میں پہنچی۔

“ان دلالوں کو جا کے بتا دو کہ میں نے تمہیں مارا ہے…پولیس سے شکایت کرو گے میری؟”

وہ کچھ دیر وہیں کا وہیں جما کھڑا رہا لیکن اتنی دیر میں اسے اس بات کا بخوبی ادراک ہو گیا تھا کہ اب عزت وقار کے حصول کی کوئی بھی کوشش بیکار ہوگی۔ بلکہ اسے اپنی ہڈیوں کی گہرائی تک اس بات کا احساس ہونے لگا کہ اس سے ناقابل تلافی گناہ سرزد ہو گیا تھا۔ اس کے بائیں رخسار پر انگلیوں کے نشان سلگنے لگے اور اس نے ذلت کا گھونٹ بھر لیا۔

“اب کس کا انتظار کر رہے ہو یہاں؟”

وہ پیچھے مڑا اور دروازے سے باہر نکل آیا۔ کھجوروں اور تنکوں کی بڑی بڑی ٹوکریوں کی بو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ اب کیا کرے گا وہ؟ وہ اپنے آپ سے یہ سوال ہرگز نہیں پوچھنا چاہتا تھا۔ لیکن اسے پتہ نہیں کیوں تسکین کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کی بھلا کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ وہ اس بات کی وجہ جان کر اپنا دھیان بٹانا چاہتا تھا۔ اس کے ذہن کا ایک حصہ تسکین اور مسرت سے بھر گیا لیکن یہ سب احساسات اسے اس غم سے نجات نہ دلا سکے جو پچھلے نصف گھنٹے میں بیتنے والے سانحوں کے باعث اس کے سینے میں جمع ہو گیا تھا۔ جب اس کی تمام کوششیں رائیگاں ہو گئیں تو اس نے دیوار سے ٹیک لگا لی۔

اس کے اردگرد لوگوں کا ہجوم اس سے بےدھیان چلا جا رہا تھا۔ شاید ایسا اس کی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو لوگوں کے انبوہ میں یوں تنہا اور اجنبی پایا تھا۔ لیکن وہ اسے تسکین اور راحت دینے والی اس کیفیت کا سبب جاننا چاہتا تھا، یہ کیفیت بالکل ویسی ہی تھی جیسی اس پر کبھی سینما میں فلم دیکھنے کے بعد طاری ہو جاتی، جب اسے یوں لگتا کہ زندگی کتنی عظیم، کتنی وسیع ہے اور مستقبل میں وہ بھی ان لوگوں میں سے ہو گا جن کی زندگی کا ہر لمحہ اور ہر ساعت دلچسپی اور تنوع سے لبریز ہوتی ہے۔ لیکن اس پر اب وہ کیفیت طاری ہونے کا کیا سبب تھا جب اسے ایسی کوئی فلم دیکھے بھی مدتیں ہو گئی تھیں اور جب کچھ ہی لمحے پہلے اس کے دل میں خواب بُننے والی سب امیدوں کے دھاگے اس موٹے شخص کی دکان میں ٹوٹ کر بکھر گئے تھے۔

کوئی فائدہ نہیں۔ اسے یوں لگا جیسے وہ مایوسی کے اس دبیز پردے کو نہیں چیر سکتا جو اس کے اور اس کے ذہن میں کسی جگہ پوشیدہ اس کیفیت کے درمیان حائل تھا۔ آخرکار اس نے مزید اس بات پر سر نہ کھپانے کا فیصلہ کیا اور دھیان بٹانے کیلئے چلنا شروع کر دیا۔ لیکن اس نے جونہی اس دیوار کا سہارا چھوڑ کر ہجوم میں چلنا شروع کیا تو اس کے کندھے پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔

“اس قدر مایوس مت ہو۔ کہاں جا رہے ہو اب؟”

طویل قد شخص مانوس انداز میں اس کے ہمراہ چلنے لگا۔ جب مروان کی نظر اس پر پڑی تو اسے یوں لگا جیسے اس نے اسے پہلے کہیں دیکھا ہو۔ مگر اس کے باوجود وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گیا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ اس  آدمی نے کہا، “وہ شخص نامی گرامی چور ہے۔ تم اس کےپاس کیوں گئے؟”؟

“اس نے کچھ دیر کے تردد کے بعد جواب دیا، “سب اسی کے پاس تو جاتے ہیں۔”

آدمی نے اس کے قریب ہو کر اپنا بازو اس کے بازو میں یوں حمائل کر دیا جیسے وہ اسے مدتوں سے جانتا ہو۔

“تم کویت جانا چاہتے ہو کیا؟”

“تمہیں اس بات کا کیسے علم ہوا؟”

“میں اس دکان کے دروازے پر کھڑا تھا۔ میں نے تمہیں اس کے اندر جاتے اور اس سے باہر آتے دیکھا۔ کیا نام ہے تمہارا؟”

“مروان۔ اور تمہارا؟”

“مجھے سب ابوخیزران کہتے ہیں۔”

مروان کو پہلی بار لگا کہ واقعی وہ شخص خیزران یعنی بانس کی طرح لگتا تھا۔ وہ بہت لمبا تھا اور بہت دبلا پتلا، مگر اس کی گردن اور ہاتھوں سے طاقت اور متانت ٹپکتے نظر آ رہے تھے۔ اور کسی وجہ سے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے آپ کو دوہرا کر کے اپنی ریڑھ کی ہڈی یا کسی بھی اور ہڈی کو گزند پہنچائے بغیر اپنا سر اپنی ٹانگوں کے بیچ سے گزار سکتا تھا۔

“اچھا، تو مجھ سے کیا چاہتے ہو تم؟”

-ابوخیزران نے اس کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے اس سے سوال کیا

“کویت کیوں جانا چاہتے ہو؟”

“-میں کام کرنا چاہتا ہوں۔ تمہیں پتہ ہے وہاں سب کچھ کیسے ہوتا ہے؟ کئی مہینوں سے میں…”

پھر وہ ایک دم خاموش ہو کر وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔

عین اسی لمحے اسے راحت اور تسکین کی وہ وجہ مل گئی تھی جو وہ چند لمحے پہلے تک ڈھونڈنے میں ناکام رہا تھا۔ اچانک وہ اس کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی تھی۔ بلکہ ایک ہی آن میں اس نے بڑے شاندار انداز سے ان تمام رکاوٹوں کو ڈھیر کر دیا تھا جو اس کے ادراک میں حائل رہی تھیں۔

اس کیفیت نے اسے ایک بار پھر ایسے پوری قوت سے اپنی گرفت میں لے لیا تھا جیسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

اس روز بیدار ہونے کے بعد اس نے سب سے پہلے اپنی ماں کو ایک طویل خط لکھا تھا۔ اب اسے یہ سوچ کر اور بھی زیادہ تسکین کا احساس ہو رہا تھا کہ اس نے وہ خط موٹے شخص کی دکان میں اپنی ساری امیدوں پہ پانی پھر جانے اور اس مسرت کے پاش پاش ہو جانے سے پہلے لکھا تھا۔ کتنی شاندار بات تھی کہ اس نے اپنی ماں کے ساتھ کچھ ساعتیں بتائی تھیں۔

وہ اس صبح بہت جلدی جاگ گیا تھا۔ ہوٹل کے نوکر نے بستر اٹھا کر چھت پر ڈال دیا تھا کیونکہ اس گرمی اور حبس میں کمرے میں سونا ناممکن تھا۔ اس نے سورج کے طلوع ہونے پر آنکھیں کھولیں۔ موسم بہت شاندار اور پرسکون تھا اور آسمان نیلا جس میں سیاہ کبوتروں کی ڈاریں بہت نیچے پرواز کر رہی تھیں۔ جب وہ ایک بڑے سے دائرے کی شکل میں ہوٹل کی چھت پر سے اڑے تو اسے ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دی۔ ہر طرف گہرا سکوت طاری تھا، اور ہوا میں صبح سویرے کی صاف اور نم خوشبو رچی ہوئی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر بستر کے نیچے پڑا چھوٹا سا تھیلا اٹھایا، اس میں سے ایک دفترچہ اور قلم نکالا اور وہیں لیٹے لیٹے اپنی ماں کو خط لکھنے لگ گیا۔

2 Ghassan Kanafani

Ghassan Kanafani (1936–1972) was born in Palestine. From 1948 onward, after his family was displaced during the Nakba, he spent his life in exile, first in Kuwait and then Lebanon.

He was a prolific writer, completing novels and short stories as well as literary criticism and journalism. His literary work brings together burning political questions and a storytelling style that is powerful. He remains one of the most important figures in Arab literature.

He was assassinated in 1972 at the age of 36, along with his teenaged niece, in a car bombing carried out by Mossad in Beirut.

The photo shows Hammad Rind, glasses on his face, dressed in a blue shirt, sitting at a table with a book on it, his hands crossed in front of him on the table.

Hammad Rind is a Welsh-Pakistani writer and translator. His debut novel Four Dervishes (Seren Books, 2021) was longlisted for the British Science Fiction Association Award. He translated Knotted Grief (Zuka Books) by Indian poet, Naveen Kishore, into Urdu under the title Uljha Gham in 2022. Hammad did a BA in English and Persian literature at the Punjab University, Lahore, and an MA in film making at the Kingston University, London. He is currently writing his second novel as well as working along with Welsh poet, Iestyn Tyne, on a Welsh translation of works by Palestinian poet, Najwan Darwish.

Maisara Baroud is a visual artist from Palestine. For more than a year, Maisara has been creating his series “I am still alive” in refugee camps, under the near-ceaseless fire of rockets, in Deir el-Balah, Rafah, and elsewhere in Gaza.

About the Art

Title: لازلت حياً / I’m still alive

حبر على ورق كانسون
21×30 سم
2025

Ink on Canson paper
21X30 cm
2025

Scroll to Top