وقت کے سرد خانے کی سازش

وقت کے سرد خانے میں

نمکین غمگینی کا ایک قیدی

آتشیں دوراہوں پر

روز رات ایک نظم پڑھتا ہے

خوابوں کے پلندوں سے ایک خواب چُنتا ہے

جھاڑتا ہے

صدیوں سے پڑی ہوئی گرد

آستینوں سے صاف کرتا ہے

اچانک کوئی ڈر آن گھیرتا ہے

سُرمئ پروں والا، کوئی بہت بڑا پکشی

اِس خواب کو اُڑا لے جائے گا

اپنے نوکیلے پنجوں سے نوچ ڈالے گا

پُرزہ پُرزہ کر دے گا

جب آنکھ کھلتی ہے

اپنا ہی گریباں

اپنے ہی ہاتھوں میں

چاک ہوتا ہے


موت کا فرشتہ سر پر آن لپکتا ہے

جس کے پروں پر پنکھوں کی بجائے، تیز دھار خون آلود تلواریں ہیں

بندِ حیات کے قبضے سے آزادی دلانے

نیند کے جھولے سے قبر کے پنگھوڑے تک

یاس و بے یقینی کی بے انتہا لہریں ہیں


اِک نئی نویلی دلہن

کیلے کے پتوں میں آراستہ

سمندر کی تہہ کی جانب

بچپن کی چھینی ہوئی

گُڑیا ڈھونڈنے نکلی ہے


چلو ہم چوڑیوں کی دُھنوں پر

رزمیے ترتیب دیں

چلو ہم اُن ماؤں کی خامشیوں کے گیت سُنیں

جنھوں نے اپنے نومولود بچوں کو

اپنے ہاتھوں سے سُپردِ خاک کر دیا


میں نے اِک یارِ ریاکار کو ہاتھ تھمایا تھا

اُس نے انگلیاں کاٹ کر کتوں کو ڈال دیں

جن کے پیٹ پر نیلی دھاری والی مچھلیاں تیرتی ہیں

میری آنکھوں سے آج  بھی سیاہی رستی ہے


اگلے روز کے اخباروں کی شہ سرخی

پورے شہر کی زبان زدِ عام ہو جائے گی

“خدا کے حکم پر قبض کی ہوئی جان قتل نہیں ہوتی”


سوجاؤ! کہ وقت کے سرد خانے کی سر زمین پر سورج اُگنے کو ہے

سوجاؤ! کہ وقت کے سرد خانے میں خواہشوں کے آئینے تحلیل ہونے کو ہیں

سوجاؤ! اس سے پہلے کے سورج کی تپش سرد خانے کو جِلا بخش دے

سوجاؤ! اس سے پہلے کہ مغموم تہہ خانوں سے وحشت آلود قہقہے اُبھر آئیں


موت کا فرشتہ سوچ کی روح کو قبض کرتا ہے

سالارِ سحر کو قتل کر ڈالا”

“کھینچ ڈالی لگام


!سوجاؤ

اِک ہونک مخلوق قابض ہونے کو ہے

وقت کے سرد خانے میں سرخابوں کا پہرہ زور پکڑتا ہے

وقت کے سرد خانے میں ایک اور نمک زدہ خواب کی آمد ہوئی

سوجاؤ! اس سے پہلے کے تمہارے خوابوں کو تسلی کا تعویذ گھول کر پِلا دیا جائے

سوجاؤ! کہ سب کچھ پگھلنے کو ہے


آنکھوں کو موندے خوف کے مارے

گمنام قیدی، اپنا خواب

انگیٹھی پر رکھی رحل میں چھپا لیتا ہے

اور بڑبڑاتا ہے

وقت کے سرد خانے کی سازش سے”

میرے یہ خواب بچ جائیں

“میرے یہ خواب بچ جائیں

The black and white photo of Waqas Manzoor, with a mustache and a beard, shows him smiling into the camera. Behind him is a plain wall.

Waqas is a multidisciplinary artist. His art practices a blend of theatre, performative storytelling, and photography. He is the founder & director of دیپ ناؤ (Deep Now), a social enterprise that works for the provision of education through the medium of arts. He completed his MPhil in Education Leadership and Management from LUMS, where he initiated Public Theatre Performances in collaboration with the Gurmani Centre of Languages and Literature. He has received the Shaila and Tahir Andrabi Leadership & Service Award, 2020, as well as the Prince Claus Seeds Cultural Practitioner Award, 2023.

His documentary, “Dastan-e-Urdu”, about 75 years of Urdu in Pakistan, was featured in the Lahore Biennale Foundation Virtual Museum. Currently, he is  working on a project on the folk toys of Punjab. He has also been involved with street theatre for the last 10 years, conducting performative storytelling with دیپ ناؤ. His translations have appeared in the Punjabi journal پنچم (Pancham).

Scroll to Top