FICTION
سڑک پَر
مصنفہ: سمیرہ عزام ۔ اردو ترجمہ: امامہ بشیر ۔ مصور: میسرۃ بارود
نوٹ: یہ اردو ترجمہ رانیہ عبد الرحمن کے انگریزی ترجمے سے کیا گیا ہے

Maisara Baroud, "I'm still alive", 2025
اور یہ گھنٹی بجی۔ کتنی دیر سے میں انتظار کر رہی تھی۔ میں جلدی سے اپنا ہاتھ پانی سے بھرے ٹب سے اُٹھاتی ہوں، جہاں خالی بوتلیں شراب سے بھرے جانے اور شہر بھر کے میخانوں اور کلَبوں میں جانے کے لیئے تیّار پڑی یئں۔ پھر یہ جام بن کر اُن لبوں سے ٹکرائیں گی جن کی پیاس کبھی نہیں بجھ سکتی۔ اور پھر یہ میری طرف لوٹیں گی، خالی، دھوئے جانے کے لیئے۔
میں اپنے ارد گرد بیچین نظروں سے دیکھتی ہوں، کسی کپڑے کی تلاش میں۔ اور اس کے ملتے ہی اپنی انگلیاں سُکھاتی ہوں، جو نمی سے جھری دار ہو گئی ییں۔ میں ایک ایک کر کے انگلیوں کو سُکھاتی ہوں، اور سونے کی انگوٹھی کی غیرموجودگی کو محسوس کرتی ہوں۔ میں نے پوری زندگی انگوٹھی پہننے کا خواب دیکھا تھا۔ کوئی بھی انگوٹھی۔ سرخ نگینے والی انگوٹھی جسے سنار کی دکان کے باہر سے شیشے کے دروازے سے دیکھا کرتی تھی۔ میرا خواب تھا کہ اپنے دائیں ہاتھ کی چوتھی انگلی پر پہنوں۔ ایک بار پیسے جمع کیے اور خود سے اُس سرخ نگینے والی انگوٹھی کو حاصل کرنے کا عہد کیا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ میرے ابو جان کی وفات ہو جائے گی، اور وہ پیسے میں امی جان کو دے دوں گی، اور اُس انگوٹھی کے بارے میں اپنے خود کو ہرگز نہیں سوچنے دوں گی۔
لیکن اب میرے پاس ہے ایک انگوٹھی۔ منگنی کی انگوٹھی۔ ایک سادہ زرد رنگ کی انگوٹھی جو میری انگلی پر ہے۔ اُس نے یہ مجھے پیش کی اور کہا، “تم میری بیوی بنو گی۔” اور میں خوش تھی۔ میں اس کی زوجہ بنوں گی اور یہ انگوٹھی پہنوں گی۔ میرا بہت دل چاہا کہ وہ مجھے ایک اور انگوٹھی بھی دے، جس میں ایک چھوٹا سا سرخ نگینہ ہو۔ لیکن اُس نے نہیں دی۔ ہو وہ غریب ہے، میری طرح، وہ کچھ نہ لے سکا سوائے اس منگنی کی انگوٹھی، ایک ریشمی جوڑے اور ایک پرفیوم کی بوتل کے، جسے میں نے آج تک نہیں کھولا۔
میں اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا چمڑے کا بیگ نکالتی ہوں اور اس کے اندر سے اپنی انگوٹھی، جو میں نے صابن اور پانی سے محفوظ رکھی ہوئی تھی، کہ کہیں وہ اپنی چمک نہ کھو دے۔ میں اسے واپس اپنی انگلی پر چڑھاتی ہوں، اور اپنے ارد گرد دیکھتے ہوئے مجھے إحساس ہوتا ہے کہ باقی عورتیں پاس ہی اپنے گھروں کو لوٹ چکی ہیں۔ شاید وہ بیٹھی ہوئی ہوں گی، گرم گرم کھانے کے سامنے، یا بستر پر آرام کر رہی ہوں گی۔ میرے پیر درد سے شدید دکھ رہے ہیں لیکن مجھے مزید انتظار کرنا ہے ۔ شاید وہ گزرتے ہوئے مجھے کارخانے کے ٹرک میں لفٹ دے دے۔ میں شہر تک اس بارش میں رات کے وقت پیدل واپس سفر کرنے کا خیال بھی برداشت نہیں کر پا رہی۔ ہاں، وہ مجھے اٹھا لے گا، ان بوتلوں کی کریٹ کے سمیت۔ وہ مجھے گھر اتار کر بییر کی ڈیلیوری کا کام پورا کر لے گا۔ میں ضرور انتظار کروں گی۔ میں تھک گئی ہوں، اور یہ کافی ہے کہ میں نے صبح پورا راستہ پیدل تہ کیا تھا۔ میں نے راستے میں کئی طرح کے منظر دیکھے۔ گھر جن کی کھڑکیوں پر ابھی بھی شٹر پڑے ہوئے تھے، اور لوگ جو نیم خواب دیدہ عالم میں کام پر روانہ تھے، آنکھوں میں خواب لئے جو ابھی تک نہیں ختم ہوئے تھے۔ میں نے عورتیں بھی دیکھیں، انڈے اور دودھ بیچتے ہوئے، اور گھروں کی چِمنیوں سے نکلتا دھواں بھی۔ اور میں چلتی رہی۔ مجھے یہاں پہنچنے کے لئے اتنا طویل فاصلہ طے کرنا پڑا۔ ایسا لگتا ہے کہ کارخانے کے مالک نے اس کو دنیا کے دوسرے کونے میں تعمیر کروایا ہے۔ اس سفر سے مجھے بچپن میں دیکھی ہوئی ریل گاڑی یاد آگئی جس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ کبھی نہ ختم ہونے والے سفر پر روانہ ہے، دنیا کی حدوں تک۔ اور میں آخرکار اسی وقت کام پے پہنچی جب باقی عورتیں پہنچیں، لیکن فرق یہ تھا کہ ان کی نسبت مجھے ایک گھنٹہ پہلے گھر سے روانہ ہونا پڑا تھا۔ میرا گھر بہت دُور ہے، شہر کے ایک قدیم حصے میں۔ یہ وہ حصّہ ہے جہاں میں پیدا ہوئی تھی اور جہاں میں ابھی تک رہتی ہوں، اور میں شادی ہونے تک وہیں رہوں گی۔
ہاں، میری شادی ہو رہی ہے! میرے پاس منگنی کی انگوٹھی ہے، ایک مرد ہے جس سے میں محبت کرتی ہوں، جس کے ساتھ شادی کے بعد مجھے رخصت ہونا ہے۔ ایک خاتون کی طرح جیوں گی- کبھی بوتلیں نہیں دھوں گی اور نہ ہی مُرغوں کی بانگ سے پہلے جاگوں گی، اور نہ ہی یہ روزانہ کا سفر ہوگا فیکٹری اور گھر کے درمیان، جس سے میرے پاؤں شل ہو جاتے ہیں۔ میرا میاں غریب ہے لیکن وہ طاقتور ہے اور نرم دل کا مالک ہے۔ اور اس کے ساتھ میں بھی مضبوط نظر آؤں گی، اور اپنے آپ کو کمزور نہیں محسوس کروں گی- جیسے ابھی کرتی ہوں، جب وہ حسین اداؤں والی عورتیں پرفیوم لگائے ہوئے میرے ساتھ سے ہو کر گزرتی ہیں۔ یہ نیلا جوڑا جو اس نے مجھے دیا ہے بہت خوبصورت ہے۔ یہ مجھے ایک اور جوڑا بھی لے کر دے گا۔ اور وہ – وہ طاقتور اور خوش شکل ہے- یہ فیکٹری میں کام کرنے والی لڑکیوں نے کہا تھا، اُس کے بارے میں۔ کافی لڑکیوں کو تو جَلَن ہوئی تھی، لیکن کچھ نے مجھے میری منگنی پر مبارکباد دی اور کہا، اب تمہیں مزید یہ مشقت نہیں کرنی پڑے گی۔
ایک چالاک لڑکی نے مجھے کہا کہ میں بہت تیز ہوں جو کارخانے آ کر دو ہی مہینوں میں ایسے مرد کا شکار کر لیا۔ میں نے اس کی بات سن لی لیکن بُرا نہیں منایا۔ شاید وہ خواہشمند ہو کہ اُس کو بھی کوئی ساتھی ملے جو اُس کا غم بانٹ کر اُس کا بوجھ ہلکا کر سکے۔ اور اس کو یہ خواہش کرنے کا حق ہے: وہ کیون نہ رکھے یہ آرزو؟ اور میں اور ہم سب، ان خوشحال عورتوں کی طرح جو اپنی بیلکنیوں پہ بیٹھ کر کافی پیتی ہیں اور گپ شپ کرتی ہیں، اور جن کی صاف رنگت والے اور سنہری انگوٹھیوں سے سجے ہاتھ کافی کا کپ اٹھا کر ان کے لبوں تک پہنچاتے ہیں، اور وہ ہنستی ہیں، ہم پے اور ہمارے بوسیدہ کپڑوں پے، جب ہم ان کے پاس سے گزرتے ہیں۔
سڑک سنسان ہے۔ رات دھند سے اٹی ہوئی ہے۔ بارش کے قطرے میرے سر پے لپٹے ہوئے اُونی مفلر پر گر رہے ہیں۔ اور وہ ٹرک جو میرے آدمی اور بوتلوں کو مجھ تک پہنچاتا ہے ابھی تک نہیں آیا ہے۔ وہ کیوں دیر کر رہا ہے؟ کہیں وہ کارخانے سے جلدی فارغ تو نہیں ہو گیا تھا؟ اور مجھے مشینوں اور لوگوں کے شور میں پتہ نہ چلا ہو؟ اب مجھے ڈر لگنا شروع ہو گیا ہے۔ میرے سامنے ایک طویل سفر ہے، عرش کی آخری حدوں تک، جہاں میرا قدیم گھر اور اس میں میری سفید سر والی ماں اور چولہے پر یخنی کا پیالہ ہمارے منتظر ہیں۔ اور مجھے اب بھوک لگنی شروع ہو گئی ہے، اور اپنی ماں کی یاد بھی آنے لگی ہے، اور اپنے ہونے والے شوہر کی۔ روز ہم تینوں آگ کے گرد بیٹھے باتیں کرتے ہیں، ان چیزوں کے بارے میں جو بییر کی بوتلوں اور کارخانے کے دھووں سے بہت دور ہیں۔ خواب دیکھتے ہیں، ان چیزوں کے جن سے ہماری زندگی کی کوئی شناسی نہیں۔ کیا وہ مجھے دیکھے بغیر گزر گیا ہے؟
گاڑی کی آواز رات کی خاموشی میں خَلَل ڈالتی ہے۔ شاید وہ ہے؟ دور سے چمکتی ہوئی آنکھیں نظر آتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ قریب آتی جاتی ہیں۔ نہیں، یہ وہ ٹرک نہیں جس کی جھنجھناتی آوازیں اور شور پریشان کرتے ہیں۔ یہ کسی امیر زادے کی گاڑی ہے، خوبصورت اور نئی۔ اور وہ اس کو چلا رہا ہے۔ لیکن وہ رکتا نہیں۔ وہ رکا کیوں نہیں؟ مجھے یقین ہے کہ اس نے مجھے دیکھا ہے۔ گاڑی کی روشنی رات کے اندھیرے کو کاٹ رہی تھی اور میں وہیں اس کے راستے میں کھڑی رہی جب تک لگا کہ وہ مجھ سے ٹکرا جائے گی۔ اور وہ ساتھ ہی سے گزر گیا۔ میں نے اونچی آواز میں پکارا اور وہ رکا۔ میں دوڑ کر اس کے قریب پہنچتی ہوں اور وہ دروازہ کھولتا ہے، لیکن جیسے ہی میں زمین سے اپنا پیر اٹھانے لگتی ہوں، میں خوف کے مارے رک جاتی ہوں۔ میرے اوپر دو خونخوار نظریں ہیں، کالے چشموں کے پیچھے۔ کون ہے یہ؟ مجھے نہیں پتہ۔ شاید یہ وہ مینیجر ہے جس کی شناخت سے میں صرف نام کی حد تک واقف ہوں۔ اپنی سِیٹ میں بیچینی سے ہلتے ہوئے وہ آگے کی طرف جھک کر، مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے پوچھتا ہے، “کون ہے یہ بدتمیز؟” وہ کچھ اور کہے بغیر اپنے سِگار سے اشارہ کرتا ہے کہ میں اس کے راستے سے ہٹ جائوں۔ اور وہ شخص جس سے میں پیار کرتی ہوں، جو مجھ سے پیار کرتا ہے، وہ کیا کرتا ہے؟ جس نے مجھے اپنے قریب لاتے ہوئے کہا تھا، “تم میری بیوی بنو گی”؟ وہ مجھے دکھیلتے ہوئے میرے منہ پر دروازہ بند کرتا ہے۔ دھیمے سے یا زور سے، یہ مجھے نہیں معلوم۔
وہ گاڑی چلی جاتی ہے، مجھے طوفان میں اکیلا چھوڑتے ہوئے۔ آنسو میرے آنکھوں سے اُبلتے ہوئے میرے گالوں پر بہنے لگتے ہیں اور نفرت کی ایک لہر مجھے لپیٹ لیتی ہے۔ میرے اردگرد کی ہر چیز بہت بڑی، اور اپنے ہی غرور میں سرمست اور مجھ ناچیز کی پہنچ سے باہر نظر آنے لگتی ہے، مجھ جیسے زمین پر رینگنے والے حشراتُ الارض کی پہنچ سے بہت دُور۔ وہ سب بڑے بڑے گھر، درخت، گاڑیاں، یہاں تک کہ شراب کی خالی بوتلیں ۔ مجھے ضخیم جانوروں جیسی بڑی لگنے لگتی ہیں۔ اور اس دنیا کی بڑی شخصیات اور اونچی عمارتوں کے درمیان، میں اپنے آپ کو اُس کے ساتھ تصور کرتی ہوں، اُس آدمی کے ساتھ جس نے مجھے انگوٹھی دے کر پوچھا تھا، “کیا تم میری شریکِ حیات بنو گی؟” ہم بونے، عرش پہ رینگتے ہوئے، اپنے آپ کو چاہے کتنی بھی اونچائی تک لے جائیں، ہم مینیجر کی انگلی تک بھی نہیں پہنچ سکتے، وہ انگلی جس کے ایک اشارے نے مجھے گاڑی سے دھکیل کر طوفان میں اکیلا چھوڑ دیا۔
Note: This short story has been translated from the English translation by Ranya Abdehman, which appears on Arablit.

Samira Azzam (1927–1967) was born in Acre, Palestine. After completing her basic education, she found work as a schoolteacher at 16, and was later appointed headmistress of a girls’ school. She was still in her teens when her stories began to appear in the journal Falastin under the pen name Fatat al-Sahel, or Girl of the Coast. When Azzam and her family were forced to flee Palestine in 1948, they went first to Lebanon; in the years that followed, Azzam would work as a journalist around the region. Azzam was also an acclaimed translator, bringing English-language classics into Arabic as she published the stories that have since appeared in five collections. In her brief life, she translated works by Pearl Buck, Sinclair Lewis, Somerset Maugham, Bernard Shaw, John Steinbeck, Edith Wharton, and others.

Amama Bashir is a Kashmir-based writer and passionate educator who loves teaching language and literature to young children. An advocate for visibility and equity, she’s also a proud cat mom.

Ranya Abdelrahman is a translator of Arabic literature into English. After working for more than 16 years in the information technology industry, she changed careers to pursue her passion for books, promoting reading and translation. She has published translations in ArabLit Quarterly and The Common.
Maisara Baroud is a visual artist from Palestine. For more than a year, Maisara has been creating his series “I am still alive” in refugee camps, under the near-ceaseless fire of rockets, in Deir el-Balah, Rafah, and elsewhere in Gaza.
About the Art
Title: لازلت حياً / I’m still alive
حبر على ورق كانسون
21×30 سم
2025
Ink on Canson paper
21X30 cm
2025