بے نام پرچھائیاں

سیلن زدہ کمرے میں
کچھ کتابیں رکھی ہیں
مشل فوکو، ایڈورڈ سعید، اقبال احمد، سوسن سونٹاگ
اور جیلانی بانو کے خطوط

کمرے کا احساس ادھورے
 بوسوں اور سسکیوں کی مانند
شدید اداس اور گہرا ہے
ہر ایک کونہ اور دیواریں
تمہارے بچھڑے لمس کی یاد میں
اپنا رنگ کھوتی جارہی ہیں

آدم قد شیشہ تمہارے
مانوس عکس کی خواہش میں
کسی پہلی محبت کے ایسے
وہیں برقرار ہے جہاں
تم نے اسے نصب دیکھا تھا

کھڑکیوں کی شبنمی اداسی
اور بوجھل وجود اب بھی
تمہاری دید کے انتظار میں ہے

آندھیوں، دھوپ، بارش اور چاہ
شکست کے خوردہ نشانات
تمہاری انگلیوں کے پوروں کی طرح
اب بھی موجود ہیں
اور اس دورِ عذاب میں بھی
کسی اجنبی امید کے باعث
تمہاری راہ دیکھتے ہیں

کھڑکی کے اس پار دن کے کسی پہر
کالج کی لڑکیوں کی اور
 تندور اور پھیری والے کی
آوازیں آتی ہیں، کبھی کبھار
ایک مؤذِن کی آواز بھی گونج اٹھتی ہے
نہ جانے کس کو
کون سی فَلاح کی جانب پکارتا ہے

سنا ہے شہر میں اب
پرانے مندروں کی جگہ
مسجدوں نے لے لی ہے
وہیں آذانیں دی جاتی ہیں

 اور قرآن بھی پڑھا جاتا ہے
خدا اب بھی موجود ہے کہ نہیں
معلوم نہیں

 تمہارے خطوط، چوڑیاں، یادیں
اور  استعمال شدہ کپڑوں کے
انتظار میں وجود کھولے
ہے کمرے میں ایک الماری بھی

سوائے ایک پنکھے کی
پاگل وار حرکت کے
سب خاموش ہے

اب کی بار لوٹو تو
کبھی نہ بچھڑنے کی چند
بےنام قسمیں ضرور کھا لینا

The black and white photo shows Kamran Fiaz looking downward. The background is blurred.

Kamran Fiaz is a PhD Scholar of Political Science. He has an Mphil in South Asian Studies. He is interested in interdisciplinary approaches and exploring different social perspectives of decolonisation, modernity, democracy, resistance, harmony, justice and the selfhood of societies. He is also interested in world literature, especially political fiction. He admires contemporary Irish literature.

Scroll to Top