صدیق کا صرف ایک ہی بیٹا تھا۔ وہ اپنی بیوی اور اکلوتے بیٹے عمر کے ساتھ ایک عام سے دہ کمروں کے مکان میں رہتا تھا۔ خرچ بھی ان تینوں کا کچھ زیادہ نہیں تھا۔ صدیق کی بیوی صفیہ بہت صابر و شاکر عورت تھی۔ جو ملتا اسی پر گزارہ کر لیتی گویا اس مختصر سے خاندان کے پاس راتوں کا چین اور دن کے سکون جیسی عظیم دولت موجود تھی۔ صدیق بڑا محنتی آدمی تھا مگر وہ کام گورکنی کا کرتا تھا۔ اسے خود بھی بڑی حیرت ہوتی کہ یہ وہ کس نوعیت کا کام کرتا ہے۔ وہ اکثر سوچتا تھا کی کسی کو کیا بتائے میں کیا کام کرتا ہوں؟ انسانوں کو ان کے آخری سفر پر روانہ کرتا ہوں؟ ان کے مردہ جسموں کہ قبر میں اتارتا ہوں؟ قبرستان میں کلرک کی نوکری کرتا ہوں یا لوگوں کیلئے خدا سے ملنے کا ذریعہ ہوں؟
یہ سوالات اسے اکثر پریشان کرتے مگر جب وہ سوچنے بیٹتھا تو کسی نہ کسی کے انتقال کی خبر آجاتی اور وہ اپنا ساز و سامان لئے قبرستان کی جانب چل پڑتا۔ وہ محسوس کرتا کہ اس کے کاندھوں کا بوجھ اس بوجھ سے زیادہ ہے جو اس کی روح پر ہے لیکن وہ خود کو یہ کہہ کر تسلی دیتا کہ مرنے والے کو کونسا میں نے مارا ہے۔ صدیق مردوں کو قبر میں اتارتا اور بہت محنت سے قبر کی لپائی کرنے کے بعد اپنی آمدنی کا انتظار کرتا۔ وہ اس کام کے عوض پانچ ہزار روپے وصول کرتا۔ مرنے والے کا کوئی عزیز ہمدردی میں اسے ہزار پانچ سو اوپر دے دیتا تو یہ اس کی اوپر کی آمدنی ہوتی جسے لیتے ہوئے اسے لگتا کہ اس نے مرنے والوں کے لواحقین سے رشوت کے طور پر یہ پیسے لیئے ہیں اور وہ جاتے جاتے ان پیسوں کے عوض صدیق کو ساری زندگی کیلئے اپنے پیاروں کی قبروں کا محافظ بناگئے۔
کچھ عرصہ بعد اوپر کی اس آمدنی میں ایک تبدیلی آئی۔ ہوا کچھ یوں کہ صدیق نے اضافی پیسے دینے والوں سے ان کا مرنے والوں کے ساتھ رشتہ پوچھنا شروع کر دیا۔ کبھی کوئی مرنے والے کا بھائی ہوتا تو کبھی تایا چاچا۔ ایک دن صدیق نے بڑے اشتیاق سے اوپر کی آمدنی دینے والے سے مرنے والے کے ساتھ اس کے رشتے کے متعلق پوچھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بار اوپر کی آمدنی بھی پانچ ہزار ہو گئی۔ گویا ایک دن میں دس ہزار کی کمائی۔ صدیق کو اس شخص نے بتایا کہ وہ مرنے والے کا اکلوتا بیٹا ہے۔ صدیق کو اس پر بڑا ہی ترس آیا کہ شاید یہ شخص اپنے باپ کی محبت کا قرض ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن قبرستان میں موجود لوگوں کی چہ مگوئیوں سے معلوم ہوا کہ مرنے والے کا یہ اکلوتا بیٹا سات سال بعد اس کی موت پر وطن واپس آیا ہے۔ اس کا باپ علاج کی غرض سے اپنے بیٹے سے پیسوں کا مطالبہ کرتا تھا جبکہ بیٹا یہ کہ کر ٹال دیتا تھا کہ میرا یہاں خرچ بہت ہے۔
زندہ باپ کو پھوٹی کوڑی نہ دینا اور اس کے مرنے پر یوں فیاضی؟ یہ خیال آتے ہی صدیق کانپ اتھا اور اپنا سامان ایک جانب رکھ دیا۔ نا جانے کیوں اسے اپنے اکلوتے بیٹے کا خیال آنے لگا۔ وہ فوراً سامان اتھا کر تیز تیز قدموں سے گھر کی جانب چل پڑا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر سب سے پہلے اپنے بیٹے پر پڑی جو کہ اپنی ماں صفیہ کے قدموں میں بیتھا سر پر تیل لگوا رہا تھا۔ صدیق نے اپنے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ایک کرسی پر خاموش بیٹھ گیا۔ صفیہ نے اپنے شوہر کو یوں خاموش دیکھا تو پریشان ہو گئی۔ صدیق نے یاس کی پریشانی بھانپتے ہوئے کہا کہ آج تو خوشی کا دن ہے۔ آج دس ہزار کی آمدنی ہوئی ہے۔ یہ سنتے ہی صفیہ سمجھ گئی کہ اوپر کی آمدنی میں اللہ نے برکت دی ہے۔ وہ اس بھی غیبی فرشتے کو دعا دینے لگی۔ اس دوران صدیق خاموشی سے نوٹ گنتا رہا۔
صدیق کے بیٹے عمر کو باپ کے ساتھ کام پر جانے کا بہت شوق تھا۔ وہ اکثر اپنے باپ سے کہا کرتا کہ ابا آج کوئی کام نہیں آیا کیا؟ کیا آج سب بہت خوش ہیں کہ کوئی مرنے والا نہیں؟ صدیق اسے یہ کہہ کر چپ کروا دیتا کہ اللہ بہتر کرے گا۔
*
عمر اب بیس سال کا ہو گیا تھا اور صدیق پچاس کا۔ اب وہ عمر کو اپنے ساتھ کام پر روز ہی لے جانے لگا۔ صفیہ بہت خوش تھی کہ اللہ نے کام میں بڑی برکت دی ہے کہ اب تو آئے روز ہی کوئی نا کوئی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور یوں گھر کا چولہا کبھی ٹھنڈا نہ پڑتا۔
وقت یوں ہی گزرتا رہا۔ سورج بھی روز نکلتا اور چاند بھی روز ڈوب جاتا۔ ایک دن صدیق دوپہر کو آرام کر رہا تھا کہ عمر اپنے ماں صفیہ کے پاس چلا آیا اور سر میں تیل لگانے کا کہا۔ ماں نے فوراً بیٹے کے سر کی مالش شروع کردی اور کہنے لگی کہ تو بڑی محنت سے کام کرتا ہے۔ دیکھ، باپ سے زیادہ کام سنبھال لیا ہے تو نے۔ سر تیرا بہت مٹی سے بھر گیا ہے۔ عمر کہنے لگا کہ اماں بس تو دعا کر کے کام دھندہ کبھی بند ہی نہ ہو، اللہ اس میں اور برکت دے۔ صفیہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد عمر سے کہنے لگی، بیٹا! تیرے باپ کو کبھی خیال ہی نہ آیا کہ میرے واسطے ایک آدھ سونے کی کوئی چیز خریدے۔ تو اب کڑیل جوان ہے۔ محبت بھی کرتا ہے، اپنی ماں کے لئے تو ہی کچھ کر لے اب۔
جب اس کی ماں نے یہ کہا کہ تو محبت بھی کرتا ہے تو عمر کے دماغ پر ایک دو سال پرانی کسی یاد نے دستک دی۔
اسے وہ دن یاد آیا جب اس نے اپنے باپ کو قبرستان کے پیچھے والے مکان میں رہنے والی ایک لڑکی کے بارے میں بتایا کہ وہ اسے پسند کرتا ہے، اور کبھی کبھی قبرستان سے واپسی پر اس سے ملنے جاتا ہے۔ عمر نے ایک ہی سانس میں باپ کو یہ تک بتا دیا کہ اس لڑکی کے جسم کا کون سا حصہ اس کے دل کو سب سے زیادہ بھاتا ہے۔ عمر اپنے باپ کو اس لڑکی کے نازک جسم کے مزید خد و خیال بتانے والا ہی تھا کہ اچانک صدیق عمر کی طرف مڑا اور ایک زور دار تھپڑ اس کے داہنے گال پر پیوست کر دیا۔ باپ نے تھپڑ اس قدر زور سے مارا تھا کہ عمر سڑک پر گرتے گرتے بچا۔ سڑک پر گزرتے چند ایک لوگوں نے رک کر یہ منظر دیکھا اور اپنی راہ لی۔ عمر کو اس سے پہلے اس کے باپ نے کبھی اونچی آواز میں جھڑکا تک نہیں تھا۔ اس دن نہ جانے صدیق کو کیا ہوا کہ اپنے بیٹے کے ساتھ یہ سلوک کر ڈالا۔ عمر نے اس تھپڑ کی تکلیف اپنے گال پر نہیں بلکہ اپنے پورے وجود پر محسوس کی، اور باپ کے لئے دل میں نفرت کے بیج بونے میں اسے ایک لمحہ بھی نہیں لگا۔
شاید دستور حیات یہی یے کہ کسی بھی انسان کو کتاب محبت کے جتنے بھی اسباق یاد کرائے جایئں انہیں یادداشت سے ہٹا کر نفرت کے اوراق وہاں چسپاں کرنے میں وہ ایک لمحہ بھی نہیں لگاتا، چاہے ایک باپ بیٹا ہی کیوں نہ ہوں۔ اچانک عمر اپنے خیالات کی دنیا سے واپس آیا تو اسے اپنی ماں کا جملہ یاد آیا جو اس نے ابھی کچھ دیر پہلے سر پہ تیل لگاتے ہوئے دہرایا تھا۔ عمر نے کہا کہ ماں، تو فکر ہی نہ کر، جس دن کام دگنا ہوا اور ایک کے بجائے دو لاشیں آگئیں تو اس دن تو سمجھنا کہ تیرا چاند تیرے لیئے چاندی کی کوئی چیز لے آئے گا۔ ماں نے عمر کے سر پر بوسہ دیا اور اس کے لئے کھانا لے آئی۔ صدیق اب تک اٹھ چکا تھا۔ تینوں نے مل کر کھانا کھایا اور اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔
عرصہ ہوا کہ صفیہ کو سونے چاندی والی یہ بات بھول چکی تھی مگر عمر کو ابھی تک دو باتیں یاد تھیں۔ ایک تو اپنی ماں کے لئے سونے چاندی کے زیور، اور دوسری وہ لڑکی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پوری طرح عمر کے وجود کا حصہ بن چکی تھی۔ مگر عمر سے کچھ بن نہ پایا۔ وہ اب پینتیس سال کا تھا جبکہ پینسٹھ سال کا بوڑھا صدیق موت کے دہانے پر کھڑا اپنے دن گن رہا تھا۔ عمر کو بس اتنا معلوم تھا کہ جب اس نے اس لڑکی کو دیکھا تھا تو وہ کوئی پندرہ برس کی ہوگی اور ابھی تک وہ اسی قبرستان کے پیچھے والے مکان میں رہا کرتی تھی۔ اس کے بڑے بہن بھائیوں کا بیاہ دراصل اس کے ہاتھوں کے پیلے ہونے میں اصل رکاوٹ تھی، اور عمر کو اس بات کی دل ہی دل میں بہت خوشی تھی۔ عمر اب بھی کبھی اس کی ایک جھلک دیکھنے جایا کرتا تھا۔
عمر ایک دن صبح قبرستان گیا تو اسے دو لوگوں کے لئے قبر کی تیاری کا معلوم ہوا۔ اسے معلوم تھا کہ دو قبروں کی تیاری اور اوپر کی آمدنی سے اسے کیا کرنا ہے۔ وہ خوشی خوشی کام میں لگ گیا۔ موت اب اس کے لئے تمام خواہشات کی تکمیل کا واحد ذریعہ تھی۔ لوگ مرتے تو اس کی اور اس کے گھر والوں کے پیٹ کی آگ بجھتی۔ جب وہ مردوں کو دفنانے گھر کی جانب جا رہا تھا تو اس نے اپنی آمدنی کو گننا شروع کیا۔ کل بارہ ہزار کٹھے ہوئے، مگر چاندی کا ایک کنگن، جو پچھلے ہفتے اسے ایک دکان پر پسند آیا تھا، پندرہ ہزار کا تھا۔ وہ بہت عرصے سے ایک دکاندار سے روز چاندی کے ایک کنگن کی قیمت پوچھتا مگر جب پیسے ہاتھ میں آتے تو وہ اور مہنگا ہو چکا ہوتا۔ اب اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ایک دو دن کے اندر وہ کنگن اس کی ماں کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کے جسموں کی خواہشات میں لپٹی اس کی محبت اس کی آغوش میں۔
رات کو بہت سے خیالات اس کے دماغ میں آئے مگر وہ انہیں نظر انداز کرتا رہا کہ کہیں یہ بات اس کے ذہن میں نہ آجائے کہ موت سے بہتر بھی کوئی کاروبار ہے، خواہشات کی تکمیل کا کوئی ذریعہ اور بھی ہو سکتا یے۔ وہ صبح سویرے ہی قبرستان چلا آیا اور ایک کونے پر بڑی محنت سے ایک قبر تیار کی۔ کچھ دیر بعد وہ اپنے باپ کے سرہانے کھڑا تھا۔ عمر نے باپ سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ قبرستان چلے اور ان تمام قبروں کو دیکھ لے جنہیں وہ اپنے ہاتھوں سے بناتا رہا ہے۔ صدیق نقاہت اور کمزوری کے عالم میں قبرستان پہنچا۔ عمر نے موقع پاتے ہی اپنے باپ کے منہ پر ایک موٹا کپڑا رکھ دیا اور یوں چند منٹوں بعد ایک لاش کا انتظام ہو چکا تھا۔
عمر نے محلے کو بتایا کہ اس کا باپ قبرستان میں سانس اکھڑنے کے باعث اچانک مر گیا ہے۔ صدیق گورکن کو دفنایا گیا۔ اس روز صرف اوپر کی آمدنی ہی بیس سے پچیس ہزار روپے ہوگئی۔ عمر نے خوشی خوشی چاندی کا کنگن خریدا اور گھر جاکے اپنی ماں کے سامنے رکھ دیا۔ صفیہ، عمر کی ماں کا خواب پورا ہو چکا تھا۔ عمر نے اس کے بعد کبھی قبرستان کا رخ نہیں کیا۔ وہ اپنی ماں کو لے کر شہر آگیا جہاں عمر کا نام خوب چلا اور اسے قبرستان میں مستقل نوکری مل گئی جہاں اس کی بنیادی تنخواہ پندرہ ہزار تھی۔
عمر ایک جانب تو اس ترقی پر بہت پرجوش تھا مگر دوسری جانب اسے اپنے وجود کے نامکمل ہونے کا احساس بھی کھائے جا رہا تھا۔ شہر میں زندہ رہنے کی کوششوں میں نہ جانے کتنے سال گزر گئے۔ اچانک ایک دن عمر، بیچینی کے عالم میں، صبح ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے اپنے پرانے علاقے کی جانب چل دیا۔ کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد عمر جوں ہی تھکا ہارا قبرستان کے پیچھے والے مکان کی جانب گیا تو اسے وہاں لوگوں کا ہجوم نظر آیا۔ معلوم کرنے پر اسے پتا چلا کہ مالک مکان کی سب سے چھوٹی لڑکی نے خودکشی کرلی ہے۔ ایک مختصر سے خط میں وہ یہ لکھ کر چھوڑ گئی کہ وہ جس سے محبت کرتی تھی اس کا بیاہ کہیں اور طے کر دیا گیا ہے۔ عمر نے جب سنا تو صدمے سے اس کی آواز چلی گئی۔ وہ چیخنے چلانے کی کوشش کرتا رہا مگر اس کے منہ سے ایک آہ بھی نہ نکلی۔ وہ چلتا ہوا اپنے پرانے قبرستان کے نزدیک پہنچا ہی تھا کہ اسے دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ وہیں موت کے فرشتے سے بغل گیر ہو گیا۔ محلے والوں کو معلوم نہ تھا کہ وہ اب کس شہر میں اور کس جگہ پر رہتا ہے لہذاً عمر کو اس کے باپ صدیق کے پہلو میں دفن کر دیا۔ قبروں کی ترتیب کچھ اس طرح سے تھی کہ پہلے صدیق، پھر عمر اور پھر لڑکی۔
Afnan is a data analyst who enjoys watching films, listening to old music, and reading modern Urdu and English literature. He is also passionate about writing and occasionally shares his thoughts on socio-political issues and human rights. His diverse interests add creativity and depth to his work.
Mariam Khawer is a mixed media artist who found her artistic calling during the pandemic. Actively contributing to the UAE’s art scene, Mariam has showcased her work in numerous exhibitions nationally & internationally, blending her Pakistani heritage with the cultural influences of the UAE.
About the Art
“Checkerboard Swirl”
This abstract artwork features three vertical panels in a striking palette of white, red, and black. Each panel is adorned with expressive splatters and drips of paint, creating a dynamic interplay of color and texture. The use of bold colors and spontaneous, energetic brushstrokes are meant to evoke a sense of rhythm and movement, capturing a moment of chaotic beauty frozen in time. The juxtaposition of these colors invite viewers to find meaning in the randomness of the patterns, reflecting on themes of contrast, balance, and the unexpected harmony that can arise from chaos.
– Mariam Khawer