Chowk

MARCH 2024: space, and existence in that space

اویس، میرے نام کا دوبارہ تعارف

 مجھے بچپن سے ہی اپنا نام سخت ناپسند تھا۔ جب میں سات سال کا تھا، میں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ وہ مجھے  واسع بلائیں۔ واسع۔ جس کی حد و انتہا نہ ہو۔ یہ میں نے اسمه الحسنه سے لیا تھا۔ لامحدود۔

  ایک ایسا شخص جو اپنے گھر والوں سے خودغرضی کے طعنے سن سن کر اکتا چکا تھا، اس کے لیے اللّہ کا یہ نام، یہ تعریف، ایک نعمت بن کر آئی۔ میں نے واسع کو اپنی لائف لائن بنالیا۔ ایک نئی ابتدا کا موقع جس میں مجھے کوئی خودغرض کہہ کر نہیں بلائے گا، خصوصاً وہ جو میرے دل کے سب سے زیادہ قریب ہوں۔

ویسے بھی اویس تو بغیر سوچے سمجھےہی رکھا تھا ناں؟ ابا جان کے وہ تمام رشتےدار جن کا اس فیصلے میں ہاتھ تھا، اس بات سے متفق تھے کہ اویس انہیں کسی سڑک چھاپ بھکاری، یا اسکول میں وہ لڑکا جو اپنی ناک میں انگلی ڈالتا تھا، یا اپنے کسی احمق کزن کی یاد نہیں دلاتا تھا۔ اویس کچھ خاص تو نہیں تھا، پر اتنا برا بھی نہیں تھا۔ 

ایک بار میرے اک قریبی رشتہ دار نے کہا، امریکا جاکر جو دل چاہے نام رکھ لینا۔

ایسے تو کچھ بھی ممکن تھا۔ میں وقتاً فوقتاً ان سے پوچھتا، تو میں اپنا نام ہیری پوٹر رکھ لوں؟ اور سب ہنسنے لگتے۔

جب میں امریکا آیا، تو نہ چاہتے ہوئے بھی اویس کو قبول کرنا پڑا۔ مجھے نہیں لگا کہ کوئی میرا نام تبدیل کرنے کی خواہش کو سنجیدگی سےلےگا۔ ابھی بھی مجھے یہ سخت ناپسند تھا۔ اویس بہت خودغرض تھا۔ اویس بہت نازک مزاج تھا۔ پر شاید یہی میری تقدیر میں بننا لکھا تھا۔ 

مجھے اس بات کا برا نہیں لگا جب میرے ساتویں جماعت کے ای ایس ایل ٹیچر نے مجھے اواس بلایا۔ اور نہ ہی مجھے تب ٹھیس پہنچی جب میرے دوست کے والد صاحب نے ہماری محفلِ موسیقی کی ریکارڈنگ پر میرا نام اوالز لکھ دیا۔ دو سال بعد جب میری گورنمنٹ ٹیچر نے بھی یہی غلطی کری، تب تو میں ہنس پڑا۔ جب ایک اور دوست سے صحیح تلفظ جاننے کے بعد ہمارے یورپی تاریخ کے ٹیچر نے پیار سےسمجھایا کہ مجھے اپنے لیے کیسے کھڑے ہونا چاہیے، اور خود ان کی اصلاح کرنی چاہیے تھی، میں بالکل بوکھلا گیا تھا۔

یہی الجھن کالج میں جاری رہی، جہاں ایسا معلوم ہوتا کہ ہر کسی کو کچھ زیادہ ہی فکر تھی کہ لوگوں کے ناموں کے صحیح تلفظ کیا تھے۔ میں کیوں اس بات پر غصہ ہوتا؟ ان میں سے کسی نے میرے جیسا نام پہلے کبھی نہیں سنا تھا تو مجھے کیا حق تھا کہ میں ناراض ہو جائوں؟ مجھے تو خود ہی اویس پسند نہیں تھا۔

پر اب بھی اویس بہت خودغرض اور نازک مزاج تھا۔ یہ بات اور لوگوں کے سامنے بھی واضع ہونے لگی تھی ۔ مجھے اویس سےسخت نفرت تھی۔

ایک بار میرے پروفیسر نے مجھے “ایوس کار رینٹلز” بلایا تو میں نے مسکرا دیا۔ کچھ لوگوں نے اس مزاق کو برا بھی سمجھا لیکن میں نے ان لوگوں کو سنجیدہ نہیں لیا۔ میں آٹو کریکٹ کا مزاق بناتا جب وہ میرے نام کو “اویٹس” یا “آلویز” بنا دیتا۔ میں اپنے دوستوں سے کہتا کہ میرے نام کے تلفظ پر بحث مباحثہ کرنا میرے ٹائم کا “ا-ویسٹ” ہے۔ میں ان لوگوں سے عاجز آگیا جو دوسروں کے ناموں کی غلط ادائیگی پر فضول بحث کرتے تھے۔ کیونکہ یہ میرے نزدیک کوئی گناہِ کبیرہ نہیں۔ مجھے خود اویس سننے سےسخت نفرت تھی۔

پر اویس کی ایک کہانی ہے۔ اور وہ ایک ایسی کہانی ہے جسے میں نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ایک ایسی کہانی جس کا مجھے حساب دینا ہے۔

یہ کہانی میری والدہ کے چھوٹے بھائی کی ہے جس کا نام بھی اویس تھا۔ اسے ایٹریل سیپٹل ڈیفیکٹ تھا، یا سادہ الفاظ میں وہ اپنے دل میں سوراخ کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔ دنیا میں اس نے جو وقت گزارا، وہ مختصر پر پراثر تھا۔

میری والدہ آج بھی اُس کا ذکر کرتی ہیں۔ وہ اپنی عمر سے زیادہ زہین تھا۔ ایک خوبصورت، بےلوث لڑکا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران جب احمدیوں کے خلاف نفرت وتشدد عروج پر تھی، دل میں سوراخ لئے اس دنیا میں داخل ہونا اُس کے گھر والوں کے لیے پریشانی کا واحد سبب نہیں تھا۔ ۱۹۷۴ میں جیسے اویس کی صحت بگڑتی گئی، پاکستان میں ہمارے لوگوں کی حالت بھی بگڑتی گئی۔ اس ہی سال ملکی تاریخ میں ہمارے خلاف بدترین تشدد کے واقعات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں کافی قتل، لوٹ مار اور املاک کی تباہی ہوئی۔

میری والدہ کے خاندان کو روزانہ ہراساں کیا جاتا تھا۔ واہ میں میرے نانا کے گھر کے ساتھ والی مسجد کے امام ہر نماز کے بعد اِسپیکر پر اعلانات کرکے لوگوں کو میرے خاندان کے افراد کے قتل پر اکساتے، یقین دلاتے کہ جو بھی ایسا کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔ میرے نانا کے گھر پر گولے پھینکے گئے۔ گھر کی ہر کھڑکی ٹوٹ گئی اور سامنے کا صحن کنکروں اور پتھروں سے بھرنے لگا۔ اچھے دنوں میں لوگ صرف پتھراؤ کرتے اور برے دنوں میں بم باری۔

اس میں اویس پلا بڑھا تھا۔ یہ چیزیں ہمارے گھر میں کیوں پھینک رہے ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ کسی کو تکلیف ہو سکتی ہے؟ تین سالہ اویس معصومیت سے پوچھتا۔ دل میں سوراخ کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے کو اس قسم کی نفرت کا کیا پتا؟

اس سال گرمیوں میں جب میرے نانا کے گھر کے سامنے ہونے والے فسادات ناقابلِ برداشت ہو گئے، تو میری والدہ کے خاندان کے تمام لوگ ربوہ منتقل ہو گئے، یہ امید لئے کہ وہاں سب محفوظ ہوں گے۔ میرے نانا نوکری کرنے کے لیے پیچھے رہ گئے۔ رات کو تاروں کو دیکھتے ہوئے اویس ان تاروں سے کہتا کہ وہ اسکے والد تک اس کا سلام پہنچادیں۔ وہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے کہتا “مجھے امید ہے اللہ میاں یہ ہوا میرے ابو کو بھی بھیجیں گے، وہ ضرور اکیلے ہوں گے۔” ایسا تھا اویس ۔

وہاں رہائش پزیر وہ بیمار پڑ گیا۔ ربوہ میں طبی سہولیات محدود تھیں اور اس کے ڈاکٹر واہ میں تھے۔ میری نانی جان اسے واپس لے گئیں۔ وہ پہلے بھی بیمار پڑتا تھا، تو یہ بس ایک معمولی سی بات تھی ناں؟

پر یہ کوئی معمولی سی بات نہیں تھی۔

چار لوگ اویس کو دفنانے گئے۔ پاکستان میں زندگی کے کئی پہلوؤں کی طرح جنازہ بھی ایک اجتماعی تقریب ہے۔ قریبی رشتہ دار کا میت کو غسل دینا، کفن پہنانا، نمازِ جنازہ ادا کرنا، اور تدفین، جہاں رشتہ دار اور برادری کے دیگر افراد خاندان کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے قبر پر مٹی ڈالنے میں مدد کرتے ہیں۔ لیکن پاکستانی قوانین کے مطابق احمدیوں کو اسلامی قوانین کے مطابق تدفین کی اجازت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ وہ کسی بھی لحاظ سے ایک مسلمان  کی طرح زندگی گزارنے سے ممنوع تھے۔ وہ کہیں بھی بڑی تعداد میں جمع نہیں ہو سکتے تھے، یہ انُ کے لئے غیرمحفوظ تھا۔ واہ میں احمدیوں کے پاس اس وقت کوئی کفن دفن کی جگہ یا قبرستان بھی نہ تھا۔ واہ کینٹ کی مقامی حکومت سے اویس کی تدفین کے لیے جگہ تلاش کرنے کی درخواست کی گئی۔

دفنانے کے لیے گئے چار آدمیوں میں سے میرے نانا جان خاندان کے واحد فرد تھے۔ وہ رات کو موٹر سائیکلوں پر نکلے اور گاڑی کچھ فاصلے پر پارک کی تاکہ وہ نظروں سے بچے رہیں۔ حفاظتی خدشات کی وجہ سے قبر کو برابر کیا اور وہاں کوئی کتبہ یا قبر کا نام و نشان نہ چھوڑا۔ ہر بڑے موقع جیسے عید، رمضان، کبھی جمعہ کی نماز پر لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر جاتے ہیں۔ اویس کو یہ سعادت بھی نہ ملی۔ میری والدہ کہتی ہیں کہ برسوں سے میرے نانا قبرستان میں اندازاً اس سمت کی طرف رخ کرکے دعا مانگتےتھے جہاں اویس کو دفن کیا گیا ہو۔ لیکن یہ روایت بھی نانا کے ساتھ ۲۰۰۵ میں چل بسی۔

اب کسی کو یاد نہیں کہ اویس کہاں دفنایا گیا تھا۔ جو ایک آدھ تصویر موجود تھی گم ہو چکی ہے۔ اس کی یاد دلانے والی کوئی لمس آشنا چیز باقی نہ رہی۔ صرف نام۔ جس نام سے نفرت کرنے میں میں نے برسوں گزار دیئے۔ وہ نام جس سے میں قطعِ تعلق چاہتا تھا۔

اب جب میں اپنے نام کے بارے میں سوچتا ہوں تو میں انہیں یاد کرتا ہوں۔ میں ہر احمدی کی زندگی کو یاد کرتا ہوں۔  اویس اب میرے لیے صرف ایک نام نہیں ہے۔ یہ ۱۹۷۴ کے بعد کے پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے ظلم کا زخم ہے جو آج تک دکھتا ہے۔ یہ اس بچے کی داستان ہے جو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔ یہ اس بچے کی عقلمندی اور صبر کی نشانی ہے جس کے اس دنیا میں صرف تین سال تھے۔ یہ میری والدہ کی اپنے مرحوم بھائی سے محبت بھرے رشتے کا یادگار ہے۔ یہ ایک خاندان کے صبر اور استقامت کی علامت ہے جسے اپنے بیٹے، اپنے بھائی کی تعزیت کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہ میری والدہ اور ان کے بھائی سے آخری اور اکلوتا رشتہ ہے۔ اور یہ سب میں ہر وقت، ہر جگہ اپنے ساتھ لئے چلتا ہوں۔ اور مجھے اویس کہلانے پر کبھی اتنا فخر نہیں ہوا۔

§

۔ اویس احمد سیئیٹل میں مقیم صحافی ہیں جو مرکزی اور جنوبی ایشیا کو کوَر کرتے ہیں۔ انہوں نے ۲۰۱۷ میں امیرکن یونیورسٹی واشنگٹن سے صحافت میں بی اے کے ساتھ ٹرانس کلچرل لٹریچر میں مائنر کیا۔ اویس اپنی تحریر میں تعلق کے احساس  تارکینِ وطن اور جبر کے سوالات کھوجتے ہیں ۔فارغ وقت میں وہ  پڑھنا اور ٹی وی دیکھنا پسند کرتےہیں۔کبھی کبھار وہ  ٹک ٹاک  پر گاتے ہوئے ویڈیوز پوسٹ کرتے ہیں۔

۔ اسد علی ذوالفقار ایک نیو میڈیا آرٹسٹ ہیں جن کا تعلق کراچی سے ہے۔ موجودہ سیاسی ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ اپنی زندگی میں اپنی ذات اور دوسروں کے لیے ہمدردی رکھنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ ان کا کام برادریوں اور نسب تعمیر شده اور قدرتی ماحول زبان اور مذہب خدا اور خود سے تعلقات کے گرد گھومتا ہے۔ اسد نے حبیب یونیورسٹی سے کمیونیکیشن اینڈ ڈیزائن میں بی اے کیا ہوا ہے۔ ان کی خدمات کو سراہنے کے لیے ۲۰۲۲ میں انہیں پرنس کلاز سیڈ ایوارڈ نوازا گیا۔

Disclaimer:
The views and opinions expressed at Chowk are solely those of the contributors and do not necessarily reflect the opinions and beliefs of the website, its affiliates, or any persons associated with them.

Scroll to Top