مسز کینیڈی اور شُتربان

حماد رند کے ناول "فور ڈرویشز" سے اقتباس

انگریزی سے ترجمہ: حماد رند ۔ تصویر: روشن ا

The photo is of pistachio-colored sweets in a sweetshop window, shaped into large triangles and covered with edible silver.

 لیلی نے حقے کی نے مجھے تھمائی اور کہنے لگی، وہ رات مجھے اب بھی ایسے یاد ہے جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو۔ کوئی آدھی رات کا وقت ہوگا کہ ایک دلخراش چیخ سے میری آنکھ کھل گئی۔ چیخوں کی گونجوں اور  پرچھائیوں کے تعاقب میں دوڑتے دوڑتے اماں کے کمرے میں پہنچی تو وہاں کیا عجیب منظر دیکھتی ہوں کہ اماں اپنے بستر پر بیٹھی گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخے جا رہی ہیں، منہ سے جھاگ ٹپک رہی ہے اور بابا انہیں ہوش میں لانے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں، کبھی جھڑکتے ہیں، کبھی جھنجھوڑتے ہیں پر اماں کی چیخیں ہیں کہ تھمنے کا  نام نہیں لے رہیں۔ آدھ پون گھنٹہ تک یہی سلسلہ جاری رہا۔  پھر بابا کو ایک پرانا آزمایا نسخہ یاد آیا۔ انہوں نے  اماں کی چپل فرش سے اٹھائی اور ان کی ناک کے قریب لائے۔ چپل کی جادوئی بو میں کچھ ایسا کرشمہ تھا کہ سونگھتے ہی اماں کے حواس یکدم جا پر آ گئے۔ کچھ دیر خلا کو ٹکٹکی باندھے گھورتی رہیں ۔ پھر جیسے انہیں کچھ یاد آیا ہو، کہنے لگیں ۔ ابھی ابھی یہاں کوئی شے میرے بستر کے پاس لمبی سی قبا اوڑھے کھڑی تھی ۔ میں تاریکی میں اس کی صورت نہیں دیکھ  پائی پر اسے دیکھتے ہی جیسے میرے بدن سے جان نکل گئی۔ اس نے اپنا ہاتھ میرے یہاں رکھا ۔ اماں نے اپنے پیٹ کی طرف انگلی سے اشارہ کیا ۔ یہاں، اور پھر میرا لبلبہ میرے بدن سے نوچ کر، اسی کمرے میں  کہیں چھپایا اور غائب ہو گئی۔ خوف کے مارے مجھ میں انگلی ہلانے کی بھی سکت نہ تھی اسلئے میں اسے روک نہ پائی۔

بابا نے کہا بھلی بی، ہذیان میں کیا احمقانہ باتیں کر رہی ہو، ہوش میں آؤ ۔ کچھ خبر بھی ہے کہ لبلبہ کس بلا کو کہتے ہیں اور کہاں ہوتا ہے یہ؟

لیکن اماں بدستور مُصر تھیں، کہا نا میں نے، اس نے میرا لبلبہ چرا لیا لیکن وہ اب بھی یہیں کہیں ہے اسی کمرے میں۔

       بالآخر بابا کو ہار ماننا پڑی۔ انہوں نے خادماؤں کو بلایا اور انہیں قالینوں کے نیچے جھانکنے اور سالوں سے بند پڑے صندوقوں اور پیٹیوں کو کھولنے کو کہا۔ لیکن وہاں سے برسوں کی دبی گرد دھول اور سالوں سے مقید بُو کے علاوہ کیا برآمد ہوتا۔ بابا نے اماں کو سونے کو کہا پر اماں کی آنکھوں سے نیند غائب ہو چکی تھی، کہنے لگیں۔

 نہیں، مجھے نہیں سونا، مجھے مٹھائی کھانی ہے۔ حلوا لا دو مجھے۔

اور یوں اماں کے من میں میٹھے اور مٹھائیوں کا سودا سمایا۔

ہر صبح تڑکے ہی سے وہ دنیا جہان کی مٹھائیوں اور شیرینیوں کا انبار لگائے صحن میں مسہری پر دراز ہو  جاتیں، خادمائیں انہیں پنکھا جھلتیں اور وہ مٹھیاں بھر بھر مٹھائی نگلتی جاتیں ۔ ملتانی سوہن، دہلوی   قلاقند، خوشابی ڈھوڈا، شاہپوری پتیسہ، غازی انطب کا بقلاوہ، بنگال کے گول گول روشوگُلے، یارک شائر کا ادرک بھرا پارکِن، اصفہانی گز، حیدرآبادی ربڑی، فرانسیسی نوغہ، شیرازی کلوچہ، فلوریڈا کی کی لائیم پائی، کراچی کی چم چم، لکھنوی قلفی ۔ غرضیکہ دنیا جہان کی کوئی ایسی مٹھائی نہ تھی جس کا بسیرا ان دنوں ہمارے فریج اور اماں کے شکم میں نہ ہوا ہو ۔ اور جب کبھی بابا جھنجھلا کر اماں کی شیرینی کے طباق چھپا دیتے تو وہ کماد کے کھیت میں جا، آلتی پالتی ڈال، گھنٹوں کچے پکے گنوں کا رس چوستیں ۔ وہ کہتے ہیں نا کہ خدا شکرخورے کو شکر اور گنجے کو ںاخن نہ دے تو بس اس قدر شکرخوری نے ان کے خون میں  منوں  مٹھاس بھر دی تھی۔ اماں کا خون اتنا میٹھا ہو چکا تھا کہ ہر قسم، نسل اور شکل کے موذی اور  خونخوار کیڑوں اور طفیلیوں نے ان پر یلغار کر دی ۔ مچھر، مکھی، پسو، کھٹمل، پشہ، زنبور، مگس، ان سب کا گزر بسر ان دنوں اماں کے خون پر ہی تھا۔

پھر ایک صبح ان کے سر پر کھجلی کا نزول ہوا اور کھجلی بھی ایسی کہ کھجاتی کھجاتے ناخن گھس  جائیں پر سر میں کل نہ پڑے ۔ اسی عالمِ خاریدن میں تھیں کہ جھولی میں دو پختہ کار  پکی عمر کی جوئیں آن گریں ۔ معلوم ہوا کہ جؤوں، لیکھوں کی ایک پورے کی پوری کالونی ان کے سر میں بسیرا کر چکی تھی۔  غسلخانے کی طرف دوڑیں ۔ بھانت بھانت اور طرح طرح کے تیل، صابن اور شیمپوؤں سے سر کو مل مل کر دھویا پر جوئیں تھیں کہ ٹس سے مس تک نہ ہوئیں ۔ اماں نے جوؤں کی کتھا بابا کو سنائی تو انہوں نے جھڑک ڈالا ۔ کہنے لگے اور کھاؤ میٹھا ۔ کہتا تھا نا کہ اتنا ندیدہ پن اچھا نہیں پر تم سنتی ہی کب ہو کسی انسان کی بات، لو بھگتو اب، بی بی تمہاری رگوں میں خون نہیں شکر دوڑ رہی ہے اب مجھ سے کیا مانگنے آئی ہو؟

خیر جب طعنوں سے جی ہلکا ہو گیا تو بابا نے اماں کو ایک تعویذ گلے میں لٹکانے کو دیا، پر جوئیں بھی ایسی ڈھیٹ، حرامخور تھیں کہ تعویذ تک کا لحاظ نہ کیا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ جب آنکھوں میں حیا نہ رہے تو پھر تعویذ کی بھلا کیا بساط؟ 

اب اماں نے خود ان ظالم حشرات کا قلع قمع کرنے کی ٹھانی۔ پر وہ بھی ویمپائر کی اولاد تھی کیسے ہاتھ آتی؟  آئینے کے سامنے بیٹھ کر بالوں میں ھاتھ ڈالا تو بیسیوں جوئیں آنا فانا انگلیوں سے پھسل پھسل تتر بتر ہو گئیں۔ اماں نے اب تک غرور کے مارے کسی خادمہ کو خبر نہ ہونے دی تھی کہ ان کا سر جگ جگ گھومتے جوگی درویشوں کے سروں کی طرح جوؤں کا  آشیانہ بن گیا ہے۔ سر منڈاتیں تو تمام بستی کو خبر ہو جاتی۔ مرتیں کیا نہ کرتیں خادماؤں کو جوؤں کی تسخیر کی ذمہ داری سونپنا ہی پڑی۔ پر موئی جوئیں بھی ایسی موذی تھیں کہ بیچاری خادمائیں بالوں کی تہوں کو کھوجتے کھنگالتے ہلکان ہو گئیں مگر جوں تو کیا کوئی کمسن لیکھ تک بھی ہاتھ نہ آئی۔

ایسی آفت اور افتاد سر پر آن پڑی تھی کہ لگتا تھا اب تو جوئیں سر ہی کے ساتھ جائیں گی پر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی عالمِ یاس میں بستی کی میراثن اصالت بی اپنی بیٹی زارا کو ہمارے گھر لائی اور کہنے لگی، پیرنی جی، مولا خوش رکھے میری چھٹکی کی آنکھیں بلیوں شِکروں سے بھی تیز ہیں اور جوئیں پکڑنے کی تو سمجھو ماہر ہے۔ خدا غارت کرے ان  کیڑوں کو جب بھی میرے سر آن پڑتی ہیں تو یہی نکال باہر کرتی ہے انہیں۔

اماں نے بے یقینی سے ایک نگاہ لاغر سی زارا پر دوڑائی پر اب اور چارہ ہی کیا رہا تھا؟ ڈوبتی کو تنکے کا سہارا، بس وہیں زارا کی طرف پیٹھ کئے زمین پر چونکڑی جما کر بیٹھ گئیں اور وہ دبلی پتلی جوں مار شکاری محاذ کی ٹھیک سے تانک جھانک لینے اوپر تخت پر آن بیٹھی اور اماں کے بالوں کے تاریک تاروں میں چھپتی، رینگتی، دوڑتی جوئیں ڈھونڈ نکالیں ۔ ایک ایک چور کو پکڑ کر، اپنے بائیں انگوٹھے کے ناخن پر رکھا اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے پیس ڈالا۔ کچھ ہی گھنٹوں میں اماں کا سر جوؤں سے پاک ہو چکا تھا۔

          اس دن کے بعد زارا کا ہمارے ہاں آنا جانا شروع ہو گیا۔ پھر ہماری عمروں میں بھی کچھ زیادہ فرق نہیں تھا اس لئے جلد ہی ہم اچھی دوست بن گئیں۔ وہ خوشی کے چلتے پھرتے فوارے سے کم نہ تھی۔ جیسے پارس پتھر لوہے تانبے کو سونا کر دیتا ہے ویسے ہی اس سے ملنے والا ہر شخص ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتا۔  خبر نہیں کہ اماں کو احسان کا بار تھا یا پھر سے جوؤوں کے طاعون میں گرفتاری کا ہول کہ انہوں نے ہماری دوستی پر کبھی حرف اٹھایا نہ کبھی ساتھ اٹھنے بیٹھنے پر مین میخ نکالی۔ مگر کئی لوگوں کو ہماری دوستی بہت کھٹکتی، یا عجیب لگتی تھی۔ اس کا سبب ہمارے خاندانوں کے بیچ کھڑی ذات پات کی دیوار تھی۔

شاید میں پہلے ذکر کر چکی ہوں کہ زارا میراثیوں کے خاندان سے تھی ۔ اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتاتی چلوں کہ ہمارے شاہپور، لہندا میں بسے ہومو سیپئنز کئی ذاتوں قبیلوں میں بٹے ہیں۔ اگلے زمانوں میں کسی کے باپ دادا پردادا لکڑدادا نے پیٹ پالنے کو جو پیشہ اپنایا وہی اس کی پشتوں کی ذات برادری ہو گیا۔ اس نظام میں سب سے اوپر بیٹھے سیدوں، صاحبزادوں، زمینداروں اور ان کے پالتو جانوروں کے بعد ہاتھ پیر کی کمائی کھانے والوں کے قبیلے آتے ہیں۔ اور ہر قبیلے سے وابستہ لوک کہاوتیں، کہانیاں، لطیفے، چٹکلے ان کے مزاج اور طبیعتوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ جیسے موچی سدا کا کنجوس، اور نائی خلیفہ ہمیشہ کا باتونی مشہور ہیں اور قصائی سے تو بچ کر ہی رہنا کہ وہ لڑائی مار کٹائی کا دلدادہ اور بات بے بات پر چاقو چھری نکال لیتا ہے اور جولاہا بافندہ عقل سے پیدل اور حساب کتاب اور گنتی کا کچا ہے۔

 میراثی جن کے پرکھوں نے موسیقی اور گانے بجانے کا فن چنا اس نظام کے سب سے نچلے زینے پر بیٹھتے ہیں۔ اب کہنے کو تو لفظ میراثی میراث سے ہے لیکن عام لوگ باگ انہیں ڈُوم یا دون یا کنجر جیسے تحقیر بھرے ناموں سے پکارتے ہیں ۔ کنجر کسی زمانے میں بن باسیوں اور بنجاروں کو کہا جاتا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کا استعمال میراثیوں کیلئے مخصوص ہو گیا اور اب تو شوبز سے وابستہ ہر ایرے غیرے کو لوگ کنجر کہہ دیتے ہیں۔ وہ کیا کہہ گئے بلھے شاہ کہ کنجری بنیاں میری عزت نئیں گھٹدی مینوں نچ کے یار مناؤن دے۔ سو گانا بجانا ناچنا سب کنجروں ہی کے کام ٹھہرے۔ میرے ایک چچا اکثر کہا کرتے تھے کہ کنجر چاہے جتنا بھی پیسہ کما لیں مگر عزت نہیں کما سکتے۔

 سو یہی حال زارا کے خاندان کا تھا۔ بستی میں بابا کی کچہری پنچائتوں میں دکھ سکھ یا شادی غمی کے موقعوں پر جب کبھی دو چار لوگ اکٹھے ہوتے تو زارا کے ابا مسکین میاں ہمیشہ فرش پر بیٹھتے اور وہاں بھی ان سے شاذ ہی کوئی دعا سلام یا کلام کرتا۔ ایسے خاص موقعوں پر ان کے سر پر ایک پرانی مٹیالی دستار اور تن پر انگریز راج کا ترکہ ایک لال اور ہری وردی ہوتی جس کے رنگ برسوں کی دھول، دھکوں اور دھلائی سے پھیکے پڑ چکے تھے۔ مگر اس ترکے کے سبب بستی کے موذی بچے مسکین میاں کو کبھی تربوز تو کبھی ہندوانہ پکارتے۔ اگر کوئی کبھی مذاق میں وردی کے بارے میں سوال کرتا تو مسکین میاں لہک لہک کر گئے وقتوں اور لوگوں کے قصے سناتے اور کہتے خدا جھوٹ نہ بلوائے، میرے دادا انگریز کی فوج میں باجا بجاتے تھے  یہ انہی کی وردی ہے جو دادا کے بعد میرے ابا نے پہنی اور اب میں پہن رہا ہوں۔ پر شاباش ہے مسکین میاں کو کہ اس سب ٹھٹھے مخول کے باوجود وہ ہر شادی، عقیقے اور ختنے پر اپنی شہنائی لئے حاضر ہو جاتے۔

صدیاں ہوئیں لہندا، پنجاب اور مارواڑ کے میراثیوں نے ڈھول تاشے اور باجے گاجے رتھوں اور بیل گاڑیوں پر لادے اور عزت کی کھوج اور ڈھلتے سورج کے سائے میں چلتے چلتے ملک فارس اور رُوم جا پہنچے وہاں ان کا نام کنجر سے بگڑتے بگڑتے چنگر اور چنگنہ ہوا، یورپ پہنچے تو کچھ نے زنگانو کہا تو کچھ نے حتانو۔ پر ان یخ بستہ زمینوں میں بھی ان بنجاروں کے ہاتھ سرد مُہری ہی آئی اور جس عزت کے حصول کیلئے وہ ہند سندھ تیاگ پردیس آئے تھے وہ سراب ہی رہی۔ شاید اپنے پرکھوں ہی کی مثال مسکین میاں کے پیش نظر تھی کہ ایکدم ان  کو اپنی کوتاہ قدی کا احساس خار کی طرح چبھنے لگا۔ باتیں کرنے والے باتیں کرنے سے کہاں رہتے ہیں۔ کسی نے یہ پر کی اڑائی کہ مسکین میاں اپنی اکلوتی بیٹی کو اسکول مدرسے بھیجنا چاہتے ہیں۔ کچھ اور نے کہا کہ میراثی کی مت ماری گئی ہے۔ جس مٹی میں باپ دادا دفن ہیں اسے یوں چھوڑ چھاڑ پردیس کے سپنے دیکھنے لگا ہے۔ خیر وجہ جو بھی ہو ایک صبح مسکین میاں اور اصالت بی نے گھر بار کا سب مال اسباب ٹٹو ریڑھی پر لادا اور کنبے سمیت دور پار کی بندرگاہ کراچی کو چل دیئے۔ میں نے اشکبار آنکھوں سے زارا کو الوداع کہا مگر اس کے کنبے کو بستی چھوڑنے سے روک نہ سکی۔

  میراثیوں کے بستی چھوڑنے سے میں تو اپنی اکلوتی سہیلی سے محروم ہوئی ہی مگر بستی کے لوگوں نے بھی ان کی کمی کو محسوس کیا۔ اب نہ تو کوئی شادیوں پر شہنائی بجانے والا رہا تھا اور نہ ہی ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کی تحقیر سہنے والا۔ وہاں دوسری طرف مسکین میاں نے کراچی پہنچ کر پہلے پہل بہت خاک چھانی، دھکے کھائے مگر نہ تو ان کے ماتھے پہ بل آیا اور نہ ہی وہ مایوس ہوئے ۔ نئے شہر میں قدم جماتے ہی انہوں نے سب سے پہلے دو کام کئے۔ پہلا یہ کہ اپنا نام بدل کر مسکین میراثی سے تسکین شاہ کر لیا اور دوسرا یہ کہ بیوی کے زیور یا اپنے گردے پھیپھڑے بیچ باچ کر ایک اونٹ خریدا اور ساحل پر دور پار سے آئے سیاحوں کو اس بے کل حیوان پر لاد کر سیر کرانے کا پیشہ چن لیا۔ مدتوں بعد جب میں نے ایک دن ان سے اس انوکھے انتخاب کی بابت سوال کیا تو انہوں نے اپنے بچپن کے ہیرو اور رول ماڈل بشیر احمد کا قصہ مجھے یوں سنایا۔

گئے دنوں کی بات ہے جب ملک خداداد میں ایک اور فوجی جرنیل کی بادشاہت تھی، سات سمندر پار امریکہ کے دیس کی رانی کرانچی کی سیر کو آئی وہی امریکہ جہاں جان ریمبو رہتا ہے۔ کیا بھلا سا نام تھا  اس انگریزوں کی ملکہ کا، جیکی یا جینی، یہ تو مجھے یاد نہیں مگر یہ ضرور یاد ہے کہ بادشاہ کے مصاحب نے جب اسے انار کے شربت کا پیالہ دیا تو شربت کی لالی اس کی صاف شفاف بلوری گردن کی پرتوں تلے صاف جھلکتی اور چھلکتی نظر آتی تھی۔  خدا جھوٹ نہ بلوائے کچھ لوگ تو یہ ایمان پرور منظر دیکھتے ہی مسلمان ہو گئے اور جو ایمان والے تھے ان کے ایمان اور بھی پختہ ہو گئے۔ خیر تو رانی جیکی ایک دن سمندر کی سیر کو آئیں اور وہاں ان کی ملاقات بشیر احمد ساربان سے ہوئی۔ بشیر کے اونٹ پر ملکہ نے ساحل کی خوب سیر کی۔ کلفٹن کا مشہور فالودہ کھایا اور امریکہ کے فیشن اخباروں کیلئے تصویریں بھی کھنچوائیں۔

 بشیر احمد کوئی معمولی اونٹ ہانکنے والا گڈریا نہیں تھا یوں سمجھو شتربانوں کا بادشاہ تھا۔ اس نے رانی جیکی کو اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور سی وی سے اتنا متاثر کیا کہ امریکہ پلٹتے ہی رانی نے اسے اور اس کے اونٹ کو ویزا دلوایا اور انہیں امریکہ بلوا لیا۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ رانی بشیر یا اس کے اونٹ پر مر مٹی تھی مگر اندر کی بات تو بس خدا ہی جانتا ہے۔ خیر دن یونہی گزرتے رہے۔ بشیر اور اس کا اونٹ ہوٹلوں رستورانوں میں ویٹر ہو گئے۔ دوسری جانب ملکہ کے دل سے بشیر ساربان کی بھولی صورت نہ جاتی تھی۔ مگر دنیا کے ڈر سے محبت کا غم خاموشی سے سہتی رہی۔

  اب کرنی خدا کی کیا ہوئی کہ کچھ عرصہ بعد رانی کے شوہر بادشاہ جان کو اس کے رقیبوں نے گولیاں مار کر چھلنی کر دیا۔ عدت پوری کرتے ہی رانی نے بشیر کو شادی کا پیغام بھیجا۔ بشیر بھی ایسا حلال کا جنا تھا کہ اس نے جواب بھیجا بی بی تمہارا حکم سر آنکھوں پر۔ آخر کو احسان ہے تمہارا مجھ پر۔ مگر نیویارک کے ہوٹلوں میں برتن مانجتے مانجتے میری انگلیاں گھس چکی ہیں مجھے واپس کیماڑی جانا اور اپنی اماں کے ہاتھ کی بنی چوری کھانی ہے ۔ کیا کہہ گئے ہیں لتا رفیع محبت تو اندھی ہوتی ہے۔ بس جیکی کینیڈی نے بھی دنیا بھر کے آرام آسائش ترک کئے اور بشیر میاں کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح پڑھوا کر کیماڑی چلی آئیں۔ کہتے ہیں اب بھی دونوں میاں بیوی ایک چھوٹی سی کُٹیا میں رہتے ہیں۔ جیکی محلے کے بچوں کو اے بی سی پڑھاتی ہیں اور یوں دونوں میاں بیوی اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔

The photo shows Hammad Rind, glasses on his face, dressed in a blue shirt, sitting at a table with a book on it, his hands crossed in front of him on the table.

حماد رند ویلز میں مقیم ایک پاکستانی نژاد ادیب اور مترجم ہیں۔ ان کا پہلا ناول “چار درویش” برطانوی سائنس فکشن ایسوسی ایشن ایوارڈ کی طویل فہرست (لانگ لسٹ) میں نامزد کیا گیا۔ ۲۰۲۲ میں انہوں نے ہندوستانی شاعر نوین کشور کی انگریزی نظموں کا اردو میں ترجمہ کیا، “الجھا غم” کے عنوان سے۔ حماد رند نے جامعہ پنجاب لاہور سے انگریزی اور فارسی ادب میں بی اے اور جامعہ کنگسٹن لندن سے فلمسازی میں ایم اے کیا۔ وہ فی الحال اپنے دوسرے ناول کی تکمیل میں مشغول ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ویلش شاعر اییسٹین ٹائن کے ہمراہ فلسطینی شاعر نجوان درویش کی نظموں کا عربی سے ویلش میں ترجمہ کر رہے ہیں۔

Roshan A. is a photographer from Pakistan.

Scroll to Top