ہم جیسے ایمانداروں کی قیمت محض دس پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں، جنہیں اپنی ایمانداری، اپنے ضمیر پر بڑا مان ہوتا ہے۔ اس دور نے انسان کو لالچی ہی نہیں بلکہ اندھا بھی کردیا ہے۔ یہاں وفاداروں کی کوئی عزت، قدروقیمت نہیں۔ اس ماحول میں سانس لینا جرم بن چکا ہے، میرے یار۔ ہر طرف قانون کی ٹانگیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ اس دنیا میں جینے کے دو ہی طریقے ہیں۔ یا تو اپنی خوشیوں کا قتل کرو اور ساری عمر خود کو گالیاں دو، یا اپنا حق چھین لو۔ ہم سسک سسک کر جیتے ہیں۔
میں نے حامد کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ لال اور پانی سے بھر آئی تھیں۔ جیسے وہ ابھی رو دے گا۔
ایک مدت پہلے…حامد رک گیا۔ پھر بولا، ایک مدت پہلے میرے سارے اصول، ساری ایمانداریاں خاک میں مل گئیں تھیں۔
اس کا چہرہ غصے کے باعث لال ہو چکا تھا۔ اس نے دائیں ہاتھ کی مٹھی کو زور سے بند کر لیا اور مسلسل اس پر زور دیتا رہا، جیسے وہ اپنے غصہ کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔
اس نے میری طرف دیکھا۔ اب وہ بالکل خاموش ہو چکا تھا۔ اس نے کوٹ کی جیب سے سگریٹ نکالا اور کش بھرنے لگا۔
تم چلو میرے ساتھ، حامد بولا۔ جب تمہاری جیب میں پیسے ہوں گے، تو تم ہر غم بھول جاؤ گے۔ ہم نے شام کو اک کام پر جانا ہے۔ تم تیار رہنا۔ میں چھے بجے تمھیں لینے آؤں گا۔ خوب سوچ لو۔ دو سال ہو گئے تمھیں سمجھاتے ہوئے، مجھے بتاؤ ذرا تمہاری ایمانداری نے بھوک اور ٹھوکروں کے سوا تمھیں دیا ہی کیا ہے؟
میں…طاہر کچھ بولتے بولتے رک گیا۔
حامد کے جانے کے بعد طاہر سوچوں میں غرق سا ہو گیا۔ چھے بجے حامد آیا اور طاہر جھجکتے ہوئے اس کے ساتھ واردات کے لیے چلا گیا۔
حامد کے ساتھ اس کے دو دوست بھی تھے۔ ان چاروں نے مل کر ایک مالدار شخص کے گھر چوری کی اور باحفاظت وہاں سے نکل گئے۔ وقت گزرتا گیا۔ اب اکثر طاہر حامد کے ساتھ چوریاں کرنے لگا۔
ایک شام طاہر نے مزاحمت کرنے پر ایک شخص کی ٹانگ پر گولی مار دی۔اس کے سفید کپڑے لال ہو گئے۔ اس کی بہن سلمی اور ماں دونوں اس کے کپڑے دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔ پوچھنے پر اس نے گھر والوں کو بتایا کہ بس گلی میں لڑائی ہو گئی تھی، فکر کی کوئی بات نہیں، یہ میرا خون نہیں ہے۔
طاہر اب سارا سارا دن گھر سے باہر ہی رہتا۔ اس کے مالی حالات بھی بہتر ہونے لگے۔
پھر ایک رات اس کے گھر پہ پولیس نے چھاپا مارا، اور گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ جب پولیس والے طاہر کو گرفتار کرنے لگے تو سلمی پوچھنے لگی کہ کیا ہوا؟ کیوں میرے بھائی کو لے جا رہے ہو؟ ایک پولیس والے نے کہا، بی بی، یہ آج واردات کر کے آیا ہے۔
یہ سنتے ہی ماں بیٹی کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ وہ دونوں خاموش ہو گئیں، اور خاموش نظروں سے طاہر کی طرف دیکھنے لگیں۔
طاہر کو پولیس لے گئی، اور وہ چھ ماہ جیل میں رہا۔ ان چھ ماہ میں حامد فرار رہا اور اکثر رات کو لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر طاہر کے گھر چکر لگاتا اور خرچا دے جاتا۔
جب طاہر واپس آیا تو وہ پھر سے حامد کے ساتھ مل کر چوریاں کرنے لگ پڑا۔
اب آئے روز پولیس والے نہ دن دیکھتے نہ رات طاہر کے گھر چھاپہ مار دیتے۔
سلمی اور اس کی ماں بہت پریشان رہنے لگے، طاہر کی وجہ سے پورے محلے میں ماں بیٹی کی بدنامی ہو گئی تھی۔
ایک دن پولیس نے چھاپہ مارا تو سلمی غصے میں آپے سے باہر ہو گئی اور پولیس والوں سے کہنے لگی، آپ یہاں کیوں بار بار ہمیں تنگ کرنے آجاتے ہیں؟ اس پر ایک پولیس والا بولا، طاہر جب تک زندہ ہے ہم آتے رہے گے۔ اور کہاں اسے ڈھونڈنے جائیں، اس کا گھر تو یہی ہے نا؟
سلمی ساری رات سو نہ سکی۔ پولیس والے کے الفاظ کہ جب تک طاہر زندہ ہے ہم آتے رہیں گے اس کے کانوں میں گونجتے رہے۔
وقت گزرتا گیا اور طاہر حامد کو گھر خرچ دینے اور خیروعافیت پوچھنے بھیجتا رہا۔
جس طرح حامد سلمی کو دیکھتا تھا، سلمی کو شک ہونے لگا تھا کہ حامد اسے پسند کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ سلمی بھی حامد سے چھپ چھپ کر باتیں کرنے لگی۔ اب آئے روز حامد سلمی کے گھر کے چکر لگانے لگا ۔
سلمی اور حامد کے درمیان پیار محبت کی باتیں ہونے لگیں۔
ایک رات جب حامد طاہر کے گھر آیا تو اچانک اکیلے میں اس نے سلمی کو شادی کا بولا۔ سلمی نے کہا کہ طاہر کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی بہن کسی چور سے شادی کرے، وہ انکار کردے گا۔
پھر سلمی حامد کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی، لیکن ایک راستہ ہے جس سے ہماری شادی ہو سکتی ہے۔
وہ کیا؟ حامد جلدی سے بولا۔
اگر طاہر مر جائے تو ہم شادی کر سکتے ہیں۔
ہاں! اگر وہ مر جائے تو ہم ایک ساتھ خوشی سے رہ سکتے ہیں، حامد نے حیرت سے کہا۔ لیکن یہ ہوگا کیسے؟
سلمی اس کی طرف دیکھتے ہوئے بو لی، تم مار دو اسے۔
حامد کا چہرہ لال ہو گیا۔ مار دوں…لیکن وہ دوست ہے میرا۔
دوست ہوتا تو تمہاری خوشیوں کا دشمن نہ ہوتا۔
ساری رات حامد جاگتا رہا، اور اپنی اورسلمی کی گفتگو کے بارے میں سوچتا رہا۔
پولیس کے چھاپے پڑتے رہے۔ اور سلمی حامد کو طاہر کو قتل کرنے کا بولتی رہی۔
ایک دن طاہر سلمی کے گھر آیا۔ وہ گھبرایا ہوا تھا اور خوش بھی۔
اب ہم شادی کر سکتے ہیں، وہ خوش ہو کر بولا۔ اب کوئی ہمیں نہیں روک سکتا۔ وہ مر گیا۔ وہ مر گیا۔
کون مر گیا؟ سلمی گھبرا کر بولی۔
طاہر۔ میں ابھی اسے گولی مار کے آیا ہوں۔
سلمی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ رونے لگی۔
اچانک سلمی بجلی کی تیزی سے چارپائی سے اٹھی، تو حامد نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
کہاں چلی، حامد بولا۔
یہ پہلی بار تھا کہ اس نے سلمی کا ہاتھ پکڑا تھا۔
آ رہی ہوں، وہ روتے ہوئے بولی۔
کچھ دیر بعد سلمی دوبارہ کمرے میں آئی اور حامد کے پاس بیٹھ گئی۔
حامد نے اس کے گلے میں بازوں ڈالے ہی تھے کہ سلمی نے چادر سے چھری نکالی اور ایک جھٹکے میں حامد کا گلا کاٹ دیا۔ فرش پر ہر طرف سرخ خون کے قطرے تھے، اور چھری کی دھار ٹھنڈے فرش سے ٹکرا رہی تھی۔
سید حر عباس اپنی گریجویشن کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ شاعری اور افسانے لکھتے ہیں۔ ان کے پاس کافی مواد ہے۔ وہ ان پر مختصر فلمیں جلد بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی اپنے لکھے ہوئے گانوں کو بھی ریکارڈ کروائیں گے۔
Aamna Waseem is currently working in the social sector. Arts is her creative outlet.
About the Art
“Internal cleanse”
The concept behind the illustration was the heaviness of the heart and its yearning to heal. Two characteristics of water are its ability to give life and its calmness. One finds in the image a desire to heal and a willingness to be cured. The contrast between the two mediums, pen and pastel, was used to further differentiate between the two elements. – Aamna Waseem
Link to the artist’s Instagram: @Aamna.w_art