سبھا

The artwork by Izza Ali Khan has a dark blue background, and a black, spidery net in the foreground.

جب اُس لڑکی کا نام سبھاشنی رکھا گیا تھا، تب کون جانتا تھا کہ وہ گونگی نکلے گی۔ اُس کی دو بڑی بہنوں کا نام سکیشنی اور سہاسنی تھا، غالباً ان کے ابا نے بس یہ سوچ کر کہ تینوں بہنوں کے نام ملتے جلتے ہوں، اس کا نام سبھاشنی رکھ دیا تھا۔ پیار سے سب اسے ’سبھا‘ بلاتے تھے۔

بڑی دونوں بہنوں کی شادی ہو چکی تھی، ہاں وہی مشکلیں جو عام طور پررشتہ ڈھونڈنے اور جہیز کی تیاری میں پیش آتی ہیں، وہ سامنے آئی تھیں، لیکن بالآخر دونوں کی شادی ہوگئی تھی۔ اب سب سے چھوٹی  بے زبان بیٹی ماں باپ کے دل پر ایک بوجھ کی طرح سوار تھی۔ بے زبان انسان کو نہ جانے لوگ جذبات سے عاری کیوں سمجھ لیتے ہیں؟ وہ سمجھتے ہیں کہ کیوں کہ وہ بول نہیں سکتی اس لیے اس کے کوئی جذبات بھی نہیں ہیں۔ وہ اس کے بارے میں بات کرتے، اس کے تاریک مستقبل پر طویل حجت کرتے، ایسے جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں۔ بچپن سے ہی اس نے سمجھ لیا تھا کہ وہ اپنے ابا کی آزمائش بن  کر اس دنیا میں  آئی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ بچپن سے ہی عام لوگوں سے دُور ہوگئی تھی اور سب سے الگ تھلگ رہتی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ اگر یہ سب بُھول جائیں کہ وہ یہاں موجود ہے تو شاید وہ بھی یہ غم بُھول جائے گی۔ لیکن کیا غم کو بھلانا اتنا ہی آسان ہے؟ دن رات اس کے اماں ابا اس کی فکر میں مبتلا رہتے تھے۔ خاص طور پر اماں تو اسے اپنے ماتھے پر سجا عیب سمجھتی تھیں۔ بیٹی ماں کا پَرتو ہوتی ہے، اس کا سایہ ہوتی ہے، بیٹے کی بات الگ ہے، لیکن بیٹی کا عیب دراصل ماں کا عیب  ہوتا ہے۔ بنی کانتھ اپنی دونوں بڑی بیٹیوں سے زیادہ سبھا سے پیار کرتا تھا لیکن ماں کی نظر میں سبھا ایک بد نُما داغ تھی جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے ماتھے پر سج گیا تھا۔

سبھا بے زبان تھی تو کیا ہوا، خدا نے اسے کس قدر دل نشین آنکھوں سے نوازا تھا، کالی گہری سیاہ آنکھیں اور ان پر پلکوں کی چلمن اور وہ پنکھڑیوں جیسے نازک لب، جو کسی بے رو خیال پر سوکھے پتےّ کی طرح تھر تھرانے لگتے تھے۔

کبھی کبھی جب ہم کچھ کہنا چاہتے ہیں، تو الفاظ تلاش کرنا کس قدر مشکل ہوجاتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے ہم اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پارہے، ہمیں درست الفاظ نہیں مل پارہے، لیکن وہ کالی سیاہ آنکھیں کچھ بھی کہنے کے لیے الفاظ کی محتاج نہیں تھیں ۔ خیالات، جذبات اور احساسات شفاف آئینے کی طرف ان میں جھلکتے تھے۔ ان میں ڈھلتے چاند کا ٹھہراؤ تھا اور بجلی کی کوند جیسی لپک تھی۔ وہ جو پیدائشی طور پر قوّت گویائی سے محروم ہوتے ہیں، وہ بولتی آنکھوں اور تھرتھراتے لبوں کی یہ کیسی زبان سیکھ لیتے ہیں؟ ایسی بولتی آنکھیں اور تھرتھراتے لب جو ایک مکمل داستان ہوں، سمندر کی گہرائیوں سے زیادہ عمیق، روز روشن کی طرح عیاں، دھوپ چھاؤں سی مچلتی، روشنی و سیاہی سے اٹھکیلیاں کرتی، ڈوبتے اور اُبھرتے سورج کی طرح  ہر شے پر حاوی ہوجانے والی داستان۔ ان کی خاموشی میں قدرت کی لا محدود تنہائی کا عکس جھلکتا ہے۔ دوسرے بچّے بھی سبھا سے ایسے بھاگتے تھے جیسے وہ کوئی چھوت ہو، کہ اگر اس کے ساتھ کھیل لیے تو وہ بھی اس کی طرح گونگے ہوجائیں گے۔ گھر کی طرح، گھر کے باہر بھی وہ تنہا ہی تھی، ساحل کی لہروں کی طرح تنہا۔

جس بستی میں وہ رہتی تھی اس کا نام چندی پور تھا۔ بنگال کے دوسرے دریاؤں سے بہت چھوٹا، وہ منا سا دریا بستی کے کنارے ایسے سہج سہج بہتا تھا کہ اس پر کسی متوسط گھرانے کی کم سن بیٹی کا گمان ہوتا تھا۔ نہ کبھی طغیانی آتی اور نہ کبھی پانی کی زیادتی اسے ستاتی، ایسا لگتا تھا جیسے دریا کا پاٹ اور پانی آپس میں صلح کر چکے ہیں۔ یہ دریا گاؤں کے ہر گھر کی ضرورت تھا، لیکن اس کا اپنا وجود بے مقصد محسوس ہوتا تھا۔ گاؤں والوں کے چھوٹے چھوٹے مکان اور سرسبز درخت ایک  قطار کی صُورت دریا کے دو رُوَیہ موجود تھے، ایسے جیسے دریا کوئی  دیوی ہے جس کے قدموں میں رہ کر ہی  آشیربادِ بقائے باہمی حاصل کیا جاسکتا ہو۔

بنی کانتھ کا گھر دریا کے ایک ایسے سرے پر تھا جہاں سے بستی کا ہر گھر اور دریا میں تیرتی ہر ناؤ دیکھی جاسکتی تھی۔ پتا نہیں ان عام چیزوں کے درمیان کبھی کسی نے اس چھوٹی سی لڑکی پر توجّہ دی تھی یا نہیں لیکن ہر روز اپنے کام نمٹا کر وہ کنارے پر آبیٹھتی تھی۔ یہاں قدرت کا ہر منظر اس کے دل کی آواز بن کر گونج اٹھتا تھا۔ لہروں کی اٹھکیلیاں، بستی والوں کی باتیں، مانجھی کا گیت، پرندوں کی چہچہاہٹ اور پتّوں کی سرسراہٹ، اس کے دل کی دھڑکن کے ساتھ گڈمڈ ہوکر ایک نیا ساز پیدا کردیتی، ایسا ساز جو اس کا حالِ دل بیان کرتا۔ قُدرت کی یہ سرگوشیاں بے زبان لڑکی کی زبان تھیں اور گہری سیاہ آنکھیں، مخمور پلکیں، دنیا کے سامنے اس کی ترجمان تھیں۔ آسمان پر بکھرے خاموش تارے اور درختوں سے بولتے جھینگر،یہ سب اظہار کے طریقے ہی تو ہیں۔ اور جب ڈھلتی ہوئی شام کے سائے لہرانے پر کشتی بان اور مچھیرے گھر کا رخ کرتے، گاؤں والے سوجاتے اور پرندے پھر بھی چہچہاتے رہتے، جب ناؤ بے وجہ ڈولتی اور ایک لمحے کے لیے کائنات ساکن ہوجاتی اور تنہائی کی چادر اوڑھ کر کسی کر یہہ صُورت عفریت کا روپ دھار لیتی تب ان سب سے پَرے، پُر فریب کائنات کی ہر شے سے دُور، ایک چھوٹے سے درخت کے سائے تلے، سورج کی لو میں دہکتے ہوئے، بس یہ گَنگ صُم قدرت اور بے زبان لڑکی ہی تو بیٹھے رہ جاتے تھے۔

لیکن سبھا اکیلی نہیں تھی۔ باڑے میں دو گائے تھیں، سربباشی اورپنگولی۔ یوں تو دونوں نے سبھا کی زبان سے اپنا نام کبھی نہیں سنا تھا، لیکن وہ اس کی آہٹ خُوب پہچانتی تھیں۔ ان کے پاس کہنے کو ایک لفظ بھی نہیں تھا، لیکن وہ دونوں اس کی میٹھی سرگوشیاں سنتی تھیں، ایسی سرگوشیاں جو ہر گفتگو سے  پیاری تھیں۔ وہ اس کا لاڈ سمجھتی تھیں، اس کی ڈانٹ کو پہچانتی تھیں اور اس کا پیار سے چمکارنا بھی ان کو خُوب معلوم تھا۔ باڑے کے  آدمیوں سے زیادہ سبھا ان کے مزاج سے واقف تھی۔ سبھا جیسے ہی باڑے میں آتی سربباشی کے گلے میں بانہیں ڈال دیتی؛ چٹ چٹ اس کو پیار کرتی، پنگولی بھی اپنی بھولی بھولی آنکھوں سے اس کی جانب دیکھنے لگتی اوراس کے پاس آجاتی۔ ان کے پاس روزانہ تین مرتبہ آنا تو اُس کا معمول تھا۔ اس کے علاوہ لاتعداد بار آنا جانا لگا رہتا۔ اگر کبھی وہ کوئی ایسی بات سُن لیتی جس سے اس کا دل دُکھ جائے تو وقت اور معمول کا لحاظ بھی ختم ہوجاتا اور وہ اپنا دل ہلکا کرنے کے لیے اپنی بےزبان سہیلیوں کے پاس آجاتی۔ ایسا لگتا تھا وہ بھی اس کی اُداسی کو بھانپ جاتی ہیں، جب ہی تو اس کے پاس آکر اس کے بازو سے اپنے سینگ سہلاتیں اور کھسیائے ہوئے انداز میں بڑے  بھول پن سے اس کو چمکارنے کی کوشش کرتیں۔ ان دونوں کے علاوہ، دو بکریاں اور بلی کا بچّہ بھی اس کا دوست تھا؛ ہاں دوستی ایسی گہری نہیں تھی، مگر وہ بھی اس کے لاڈ اُٹھاتے۔ دن رات میں جب بھی موقع ملتا، بلی کا یہ بچّہ اس کی گود میں آدھمکتا، سبھا اس کے نرم بالوں اور گردن پر اپنی نازک انگلیاں پھیرتی جاتی اور وہ اس کی گود میں ہی سوجاتا۔

سبھا کی جانوروں کے علاوہ بھی کچھ جان پہچان تھی، یہ کہنا البتہ مشکل تھا کہ یہ ساتھ کس قسم کا تھا، کیوں کہ ان میں ایک واضح فرق تھا، وہ یہ کہ سبھا بے زبان تھی اور وہ بول سکتا تھا۔ یہ گوسائن کا سب سے چھوٹا لڑکا پرتاپ تھا، فارغ البال اور بےفکر۔ اس کے اماں ابا نے بڑی کوششیں کیں کہ لڑکا کچھ بن جائے، کسی کام لگ جائے لیکن جب ہر اُمید پر پانی پھر گیا تو اُنھوں نے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اس قسم کے فارغ لڑکوں کی ایک خُوبی یہ ہوتی ہے کہ ان کے اپنے گھر والے تو ان کو پوچھتے نہیں لیکن یہ غیروں میں خُوب مقبول ہوجاتے ہیں۔ نہ کوئی کام نہ دھندا، عوامی بندہ ۔ آوارہ  گھومتے ہیں۔ جیسے ہم سب کے لیے تازہ ہوا لازمی ہے، غالباً اسی طرح ہر قصبے کو اس جیسے دو تین فارغ لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو اپنا وقت اور توجّہ دینے کے لیے ہر پل تیار ہوں اور جن سے ضرورت کے وقت دل بہلایا جاسکے۔

پرتاپ کی زندگی کا مقصد بس مچھلی پکڑنا تھا۔ اس کا سارا وقت اسی مشغلے میں گزرتا، اور شاید ہی کوئی ایسا دن تھا جب اس نے اپنی دوپہر کوئی اور کام کرتے گزاری ہو۔ یہی وجہ تھی کہ سبھا سے اس کی ملاقات اکثر ہوتی تھی۔ مصروفیت چاہے کیسی بھی ہو، ایک ساتھی ہو تو اچّھا لگتا ہے، خاص طور پر مچھلیاں پکڑتے وقت تو گونگے ساتھی سے اچّھا ہمدم کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔  پرتا پ کو سبھا کی خاموشی بھاتی تھی۔ سب اسے سبھا بولتے تھے، لیکن وہ اسے پیار سے ’سُو‘ پکارتا تھا۔ سبھا ہمیشہ املی کے سائے میں بیٹھتی تھی اور پرتاپ اس سے کچھ دور کانٹا لگاتا تھا۔ پرتاپ کا معمول تھا کہ وہ اپنے ساتھ چھالیہ رکھتا تھا، اورسبھا اسے پان لگا کردیتی تھی۔ غالباً یوں ان طویل لمحات میں ساتھ بیٹھے، وقت کو ایک ایک پل میں گزرتا دیکھتے، کہیں نہ کہیں سبھا کے دل میں یہ ارمان تھا کہ پرتاپ کی مدد کرکے وہ ثابت کرسکے کہ وہ کوئی بیکار چیز اور بوجھ نہیں، بلکہ بہت کام کی ہے۔ لیکن سچ تو یہ تھا کہ وہاں کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ اسی لیے بے  تاب ہو کر وہ دعائیں مانگنے لگتی، خدا کے سامنے گڑگڑاتی کہ کاش کچھ ایسا ہوجائے کہ پرتاپ بول اُٹھے، واہ! مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ ’سُو‘ اتنی سمجھ دار ہے۔

سوچو ذرا، اگر سبھا جل پری ہوتی، تو دریا کی لہروں کے پیچ و خم دے کر  دریا کی گہرائیوں میں چھپا قیمتی ہیرا کنارے پر لے آتی۔ تب تو پرتاپ ضرور اپنا یہ بے کار کام چھوڑ کر دریا کی گہرائی کھوجنے نکل پڑتا، اور جب وہ دریا کی گہرائی میں قیمتی جواہرات سے بنے دلفریب اور سنہری تخت کو پالیتا تو اسے پتا چلتا کہ یہاں کی رانی اور کوئی نہیں بلکہ گونگی سُو ہے، وہ سُو جو بنی کانتھ کی بیٹی ہے۔ ہاں، ہماری سُو، جواہرات کے چمکتے دمکتے شہر کے بادشاہ کی اکلوتی بیٹی! لیکن شاید ایسا نہیں ہوسکتا تھا، شاید یہ  بالکل ناممکن تھا۔ ویسے تو کچھ بھی ناممکن نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سُو کسی بادشاہ کے گھر پیدا نہیں ہوئی، بلکہ بنی کانتھ کی بیٹی ہے، اور وہ اچّھی طرح جانتی ہے کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے گوسائن کا یہ لڑکا متاثر ہو۔

آہستہ آہستہ وہ بڑی ہوگئی۔ خود کو سمجھنے لگی۔ ایسا لگتا تھا جیسے، چڑھتے چاند کے ساتھ، فہم و ادراک کا ایک سمندر اس کے دل میں موجزن ہوگیا ہو۔ وہ خود کو دیکھتی، کبھی جانچتی، کبھی ٹٹولتی، لیکن کوئی جواب نہیں ملتا۔

ایک مرتبہ کا ذکر ہے، پورے چاند کی رات، اس نے آہستہ سے اپنا دروازہ کھولا اور ڈرتے ڈرتے باہر جھانکا۔ یہ کائنات بھی، پورے چاند کی رات میں، اسی کی طرح بالکل تنہا تھی، اور سوئی ہوئی دنیا کو خاموشی سے تک رہی تھی۔ اس کا نوجوان دل پوری شدّت سے دھڑک رہا تھا؛ جیسے خُوشی اور اُداسی کے مل جانے سے لبریز ہوگیا ہو؛ وہ اپنی تنہائی کی انتہا پر تھی، لیکن کیا اس کی تنہائی کی کوئی انتہا تھی؟ اس کا دل بھاری تھا، اور وہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔ اُداس اور خاموش کائنات کے سامنے اُداس اور خاموش لڑکی سربہ مہر تھی۔ 

اس کی شادی کی فکر نے اس کے والدین کو بے چین کر رکھا تھا۔ لوگ باتیں بنا رہے تھے، طعنے مار رہے تھے اور تو اور سماج سے علیٰحدہ کرنے کی باتیں بھی ہونے لگی تھیں۔ بنی کانتھ امیر آدمی تھا، ان کے یہاں دن میں دو بار مچھلی کھائی جاتی تھی، اور ظاہر ہے پیسہ تھا، تو کئی حاسد اور دشمن بھی تھے۔ پھر گھر کی عورتوں نے جوڑ توڑ کی اور بنی کانتھ کچھ دنوں کے لیے سفر پر روانہ ہوگیا۔ گھر لوٹ کر اس نے کہا، ہمیں کلکتہ جانا ہوگا۔

پھر کیا تھا، سب نے اجنبی شہر جانے کی تیاریاں شروع کردیں لیکن کسی شبنم آمیز صبح کی طرح سبھا کے دل پر آنسو چھاگئے تھے۔ کتنے ہی دنوں تک وہ انجانے خوف کی وجہ سے اپنے ابّا اماں سے چُھپ رہی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں بے حد تجسس تھا، اور وہ اُن کے چہرے کو مسلسل ٹٹول رہی تھی جیسے کچھ جاننا چاہتی ہو۔ لیکن وہ ایک لفظ بھی نہیں بولے۔ اور پھر ایک دوپہر پرتاپ، جو کہ حسبِ عادت مچھلی پکڑنے میں مصروف تھا، بےاختیار ہنس پڑا اور بولا، ’’لگتا ہے انھیں تمھارا دولہا مل گیا ہے، سُو۔ اب تم اپنے گھر کی ہوجاؤ گی! مجھے بُھول نہ جانا!‘‘ پھر وہ اپنے مشغلے میں مگن ہو گیا۔ اور سبھا پرتاپ کو ایسے تکنے لگی جیسے کوئی زخمی کبوتر شکاری کو تکتا ہے اور پوچھتا ہے، ’’میں نے تمھارا کیا بگاڑا تھا؟‘‘ اس دن اس کے لیے اپنے درخت کے نیچے بیٹھنا بھی ناممکن ہوگیا تھا۔ بنی کانتھ، قیلولہ کر کے اُٹھ چکا تھا، اور اپنے کمرے میں حقہ پی رہا تھا جب اچانک سبھا اس کے قدموں میں آگری اور اس کی طرف دیکھ دیکھ کر زاروقطار رونے لگی۔  بنی کانتھ اس کو چُپ کروانے کی کوشش کررہا تھا، لیکن اس کا اپنا چہرا بھی آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔

یہ طے تھا کہ اگلی صبح وہ کلکتہ جائیں گے۔ سبھا نے جانے سے پہلے باڑے میں اپنی ہم جولیوں کو الوداع کہا، ان کو اپنے ہاتھ سے گھاس کھلائی، ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر پیار کیا اور ان کے چہرے کی طرف دیکھ کر آنسو  بہانے لگی تاکہ دل کا حال بیان کرسکے۔ وہ چاند کی دس تاریخ تھی۔ سبھا اپنے کمرے سے نکلی اور اپنے پیارے دریا کے کنارے جا لیٹی جیسے اپنی خاموش سہیلی، اپنی زمین ، اپنی کائنات کی بانہوں میں سما کر کہہ رہی ہو، ماں! مجھے جانے نہیں دو، اپنی بانہوں میں لے لو، جیسے میں نے تم کو اپنا لیا ہے، تم بھی مجھے اپنا لو۔

ابھی کلکتہ آئے ایک ہی دن ہوا تھا کہ سبھا کی ماں نے اسے بڑے پیار سے سجا دیا۔ چوٹی گوندھی، بالوں میں ریشم کی ڈوری سجائی، پھر زیور سے لادا اور اس کی فطری خُوب صُورتی کا ہر نشان مٹا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن سبھا کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری جاتی تھیں۔ بیزاری سے اس کی اماں اس کو سخت سست سُنا رہی تھیں، ان کو فکر لاحق تھی کہ کہیں اتنا رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سوج نہ جائیں۔ لیکن آنسوؤں پر ڈانٹ کا اثر کہاں ہوتا ہے؟ دولہا اپنے دوست کے ساتھ لڑکی دیکھنے آیا تھا۔ سبھا کے والدین  نے جیسے ہی دیکھا کہ  قربانی کا جانور پسند کرنے، خدا خود آگیا ہے، ان کا خوف اور وحشت سے بُرا حال ہونے لگا۔ پردے کے پیچھے ان کی ہدایات بدستور جاری تھیں، معائنہ سے پہلے کی جانے والی سرزنش نے بیٹی کے رونے میں دگنا اضافہ کردیا تھا۔ معائنہ شروع ہوا۔ پھر کافی دیر غوروخوض کرنے کے بعد آخر وہ بولا، اتنی بُری نہیں۔

لڑکی کے آنسوؤں نے اس کو خاص طور پر متوجّہ کیا تھا، اور اس نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ یقیناً لڑکی رحم دل اور حساس ہے۔ آنسو اس کے حق میں گئے تھے، اور یہ ثابت کر رہے تھے کہ بھلے یہ دل، آج والدین کی جدائی کی وجہ سے اُداس ہے، لیکن اس حساس دل کا مالک بن جانا بے سود نہیں ہوگا۔ جیسے موتی، سیپی کی قدر میں اضافہ کردیتا ہے، ویسے ہی لڑکی کے آنسوؤں نے اس کی وقعت بڑھا دی تھی، اور اس کے علاوہ اس نے کچھ نہ کہا۔

کنڈلیاں ملائی گئیں، اور ایک مبارک دن کا انتخاب کر کے شادی کردی گئی۔ اپنی بےزبان بیٹی کو کسی اور کو سونپ کر سبھا کے ماں باپ گھر لوٹے۔ اطمینان کی سانس لی۔ معاشرے میں ان کا مقام اور آخرت میں ان کا انجام، اب بالکل محفوظ تھا۔ دولہے کی ملازمت مغربی علاقے میں تھی، تو شادی کے بعد اس نے بھی بیوی کے ساتھ رخت سفر باندھا۔

دس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ سب کو پتہ چل گیا کہ دلہن گونگی تھی! اب اگر کوئی لاعلم تھا، تو اس میں سبھا کا کیا قصور تھا؟ وہ تو اپنی آنکھوں سے سب کہہ رہی تھی، وہی اس کی بات سمجھنے سے قاصر رہے تھے۔ وہ سب کے ہاتھوں کی طرف دیکھتی، لیکن الفاظ تلاش کرنے میں ناکام ہوتی، اجنبی چہروں میں اپنوں کو تلاش کرتی، وہ چہرے جو بچپن سے ساتھ تھے، وہ جو گونگی لڑکی کی زبان سمجھتے تھے۔ اس کے خاموش دل میں لامتناہی ، بےآواز سسکیاں گونج رہی تھی، لیکن یہ آواز صرف دل کی آواز سننے والے سُن سکتے تھے۔

The portrait of Rabindranath Tagore shows him with long white hair and a long white beard, gazing to one side, wearing a gray-blue shawl edged in brown draped over his shoulders.

رابندر ناتھ ٹیگور ۷؍مئی ۱۸۶۱ء کو  کلکتہ (برٹش انڈیا)  میں   پیدا ہوئے۔ آپ ایک شاعر، مصنف، ڈراما نگار، موسیقار، فلسفی، سماجی رہ نُما، مصوّر اور تعلیم دان بھی تھے۔ آپ نے ہندوستان میں  بنگالی موسیقی اور  اَدب  کو ایک نئی جہت عطا کی ۔ آپ کی وجہ شہرت اَدب کا نوبیل انعام بھی ہے، جو آپ کو ۱۹۱۳ء میں آپ کے مجموعہ نظم ’گیتانجلی‘ کے لیے دیا گیا۔

نوبیل انعام کی آفیشل ویب سائٹ پر درج ہے کہ اَدب کا نوبیل انعام رابندر ناتھ ٹیگور کو  دیا گیا ، ’کیوں کہ  اپنے لطیف، انتہائی حساس اور دل کش اشعار  کے ذریعے، انھوں نے اپنی شاعرانہ فکر کو مغربی ادب کا حصّہ بنادیا ہے‘۔

The photo of Nuzhat Nisar is of her smiling into the camera, brown hair falling over her left shoulder, a necklace around her neck, dressed in a red-maroon top. On her right peek green leaves from a plant.

نزہت نثار ایک مدیر، مترجم، صحافی اور مصنفہ ہیں جو  اُردُو رسائل و کتب کی تصنیف و تالیف اور ادارت سے وابستہ ہیں۔ بطور صحافی ان کا کام  تعلیم، حقوقِ نسواں، سماجی انصاف، ماحول اور زبان و ادب سے متعلق موضوعات  کا احاطہ کرتا ہے۔

Izza Ali Khan is a visual artist, born and raised in Sahiwal. She recently graduated from Lahore College for Women University, majoring in Painting. Her thesis artworks were displayed in Alhamra Art Gallery and were well received. Highly skilled in different mediums, she mostly uses mix mediums as well as 3D elements. Her work has recently been displayed in the 19th Emerging Exhibition at the VM Art Gallery and at the Artsoch Gallery. She lives in Lahore where she practices art and works as a Gallery Coordinator at the ArtSoch Contemporary Gallery. She can be found on Instagram @izza_ak12.

About the Art
“The Blue Agony”
Oil on canvas
3ft x 3ft 

The artwork was based on an assignment called Zoom In, where students had to take an area from their surroundings and make its zoom-in version. Feeling conflicted and trapped at that time because of university and other personal reasons, Izza took this pattern from a bus seat when ended up beautifully depicting her feelings. The majority of her artwork is in shades of blue; it is the only color which can express the intensity of her emotions and also keep her calm while she paints with it. 

“The Blue Agony” is currently with Artsoch Gallery, Pakistan, and is on sale.
https://artsoch.com/

Scroll to Top